علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18897
یقین اسے کہتے ہیں جو کسی بھی طرح متزلزل نہ ہو۔ یقین دین کی اساس ہے۔ مشاہدات اور مراتب کے لحاظ سے اس کے تین درجے ہیں۔
علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔
اگر کسی شئے کے علم کے بارے میں دلیل و برہان کے ذریعے اس حد تک یقین ہو جائے کہ تردد نہ رہے تو اسے علم الیقین کہتے ہیں۔
اگر یہ علم دلیل و برہان سے گزر کر مشاہدہ بن جائے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں۔ اگر علم کی حقیقت سامنے آ جائے اور بلا کم و کاست حقیقت شئے یا شئے کی تہہ کا علم ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔
مثلاً میں نے کہا انگور، اور انگور کی تعریف بھی بیان کر دی تو آپ نے یقین کر لیا تو یہ علم، علم الیقین ہے۔
آپ نے پہاڑ پر یا باغ میں جا کر انگور کی بیل پر انگور کے خوشے دیکھ لئے اس کا الگ ذائقہ بھی چکھ لیا، خوشبو سونگھ لی یہ عین الیقین ہے۔ آپ نے یہ علم حاصل کر لیا کہ انگور کی بیل میں انگور کیوں لگتے ہیں؟ زمین میں سے انگور میں مخصوص مٹھاس، کھٹاس، ذائقہ میں قدرت کے کون سے فارمولے کام کر رہے ہیں تو یہ علم حق الیقین ہے۔
دوسری مثال:
میں نے کہا، آپ نے سنا ’’آدمی‘‘۔ میری بات کا آپ نے یقین کر لیا یہ علم الیقین ہے۔ آدمی کی خصوصیات کا علم ہو گیا اور آدمی کی تعریف معہ اس کی صلاحیتوں کے آپ کے سامنے بیان کر دی گئی اور آپ کے شعور نے اسے قبول کر لیا تو یہ علم عین الیقین ہے۔ اگر آدمی کے تخلیق راز و نیاز، حیات و ممات کی قدریں اور اللہ کے وہ رموز جو اللہ نے انسان کی روح میں مخفی کر دیئے ہیں اور جن سے آدم کو واقف کر دیا گیا ہے اس کا علم حاصل ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 147 تا 148
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔