عدم تحفظ کا احساس
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6230
آئیے اس نشست میں ہم زندگی اوراس کے تقاضوں کی ماہیت پر غور و فکر کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارا روزمرّہ کا مشاہدہ ہے کہ زندگی تقاضوں کے دوش پر سفر کر رہی ہے۔ ہمارے اندر تقاضے پیدا ہوتے ہیں اور ہم ان کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم بھوک رفع کرنے کے لیئے غذا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پیاس لگتی ہے تو فوراً ہمارا رجحان پانی کی طرف ہو جاتا ہے۔ ہم کھانا کھا لیتے ہیں، پانی پی لیتے ہیں۔ یعنی تقاضوں کی تکمیل کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہمیں تسکین مل جاتی ہے اور ہم مطمئن ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم کسی تقاضے کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہمارا ذہن اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور ہمیں بار بار اس عدم تکمیل کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں اضطراب اور پریشانی ہمارے اندر دَور کرنے لگتی ہے۔ ہم کوئی بھی کام ارتکازِ توجہ سے نہیں کر سکتے۔ بار بار ہماری توجہ بھٹک جاتی ہے۔
تمام تقاضوں کا یہی حال ہے اور کھا نا پینا، خوش ہونا، محبت کرنا، معاش کا کام کرنا، اولاد کی تعلیم و تربیت کرنا، ایثارو محبت، دوسروں کے کام آنا العرض زندگی کا ہر عمل کسی نہ کسی تقاضہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ تقاضے دنیا کے ہر آدمی میں پیدا ہوتے ہیں اور دنیا کا ہر آدمی کسی نہ کسی طرح کبھی نہ کبھی، جلد یا بہ دیر ان تقاضوں کی تکمیل کر کے اطمینان حاصل کرتا ہے۔
جسم کے تقاضوں کی طرح انسان کی رُوح میں بھی تقاضے ہوتے ہیں۔ رُوح کے تقاضے بھی انسانی شعور کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان تقاضوں کی تکمیل ہونی چاہئے۔ رُوحانی تقاضے اور ان کی تکمیل جسمانی تقاضوں سے زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ ان کے نتائج جسمانی تقاضوں کے مقابلے میں زیادہ مسلسل اور عظیم الشان ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل کے نتیجے میں انسان کو بہت زیادہ سکون، بہت ذیادہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ہر فکر کو بھول جاتا ہے۔ ایک سرشاری اور ایک کیف اس کے ذہن کا احاطہ کر لیتا ہے۔ چاروں طرف سے خوشی اور خوشی کے لوازمات اُسے حصارمیں لے لیتے ہیں۔ اور کسی غم یا کسی پریشانی کو اس کے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔
ان رُوحانی تقاضوں میں سب سے اہم اورسب سے زیادہ بنیادی تقاضہ جو ہر انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ انسان کو احساس دلاتا ہے کہ اسے اپنے اللہ سے رابطہ پیدا کرنا چاہئے اور اسے ان خوشیوں اور مسرتوں سے بہرہ مند ہو نا چاہئے جو کہ اس رابطہ، اس قربت کا لازمی نتیجہ ہیں۔ انسان کی رُوح اس خوشی اور اس مسّرت کے حصول کے لیئے بے قرار ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان اس ذہن کو پسِ پشت ڈال چکا ہے جو اُسے ایسے تقاضوں اور ان کی تکمیل کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے۔ انسان نے چند روزہ مادّی زندگی کے عارضی تقاضوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ جسم فانی ہے اور جسمانی خوشیاں اور غم بھی عارضی ہیں۔ یہ سب جسم کی موت کے ساتھ ہی فنا ہو جائیں گے۔ رُوح لافانی ہے ۔اس لیئے ہر وہ چیز جو رُوح سے متعلق ہے اپنے اندر لا فانیت کا پہلو رکھتی ہے۔ رُوحانی تقاضوں کی تکمیل کے نتیجے میں جو رُوحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ ہمیشہ کی مسرّت و آرام کی ضامن ہوتی ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے، جیسا کہ ہم ابھی کہہ چکے ہیں انسان ان سب با توں کی اہمیت کو فراموش کر چکا ہے، وہ اپنی رُوح سے دور ہو چکا ہے۔ اور رُوحانی تکمیل کی طرف سے لاپروا ہو گیا ہے۔ لیکن اس کی رُوح اُسے اب بھی ان تقاضوں کی تکمیل کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے۔ انسان اسے خواہ کچھ بھی معنی پہنائے، اُسے کسی بھی مفہوم میں قبول کرے اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ رُوح کے بار بار خبردار کرنے پر بھی جب ہم اس کی تکمیل نہیں کرتے تو تقاضے کا ردِ عمل ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہی ردِ عمل ہے جو جسمانی تقاضوں کی عدم تکمیل سے بھی پید اہوتا ہے۔
اس ردِ عمل کی کیفیت مذکورۂ اولیٰ کیفیت سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ کبھی اس کیفیت کو انسان ذہنی انتشار کی صورت میں محسوس کرتا ہے، کبھی بے اطمینانی اور عدم سکون سے تعبیر کرتا ہے، کبھی عدم تحفظ کے احساس کی حیثیت دے دیتا ہے۔ لیکن یہ سب ایک رُوحانی تقاضے کی عدم تکمیل کے (SIDE EFFECTS) ) ہیں۔ اوروہ تقاضہ یہ ہے کہ انسان کی رُوح چاہتی ہے کہ انسان اللہ تعالےٰسے قربت حاصل کرے اور اس طرح اپنے اصل مقام پر جسے وہ ماضی میں رد کر چکا ہے فائز ہو جائے اور اس طرح ہر پریشانی اور غم سے محفوظ اور مامون ہو جائے۔
لہٰذا
ہم سب کے لیئے لازم ہے کہ ہم رُوح کے اس تقاضے کی تکمیل کے لیئے عملی اقدام مراقبہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرمائے ۔
اٰمین !
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 147 تا 149
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔