طلسمی سانپ
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=29705
سوال: آپ نے ٹیلی پیتھی اور دیگر روحانی علوم اور ماورائی علوم کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے جو کہ یقیناًایک بالکل منفرد سلسلہ ہے۔ پاکستان میں ہی کیا پورے ایشیاء میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جہاں عوام کو باقاعدہ روحانی علوم سکھانے کا باقاعدہ انتظام اور نگرانی ہو۔ ہم اکثر ٹیلی پیتھی کے طلبہ و طالبات کی روحانی واردات پڑھتے ہیں۔ ہم نے زیادہ تر یہ دیکھا ہے کہ اکثر طالب علموں کی واردات میں نیک ارواح، اولیاء اللہ اور مقامات مقدسہ کی زیارت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نیک ارواح ماورائی مخلوق میں شامل ہیں۔ فرشتے بھی ماورائی مخلوق میں شامل ہیں، اسی طرح شیاطین، ابلیس اور بدروحیں بھی تو ماورائی مخلوق میں شامل ہیں۔ ان سے ماورائی علوم کے طلبہ کی ملاقات کیوں نہیں ہوتی۔ براہ کرم اس بارے میں وضاحت فرمایئے۔
جواب: تمام سری علوم جن میں ٹیلی پیتھی یا انتقال افکار کا علم بھی شامل ہے، کو سمجھنے، سیکھنے اور ان علوم سے استفادہ کرنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک رحمانی طرز ہے اور دوسری طرز کا نام استدراج ہے۔
کلیہ یہ ہے کہ اگر علوم کی معنوی حیثیت تعمیر ہے تو وہ حق ہے اور اگر علم کی معنوی حیثیت تخریب ہے تو وہ شیطنت ہے۔ حق اور شیطنت دونوں کا تعلق طرز فکر سے ہے۔ رحمانی اور شیطانی دونوں گروہوں کی طرز فکر اور کلمہ طریق جدا جدا ہیں۔ کلمہ طریق طرز فکر کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
استدراجی طرز سے وابستہ لوگوں کے کلمہ طریق، دیواہ کالی واہ ہیں۔ یہ الفاظ سریانی زبان سے بھی پہلے کے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک اہل حق کا جو کلمہ طریق رہا وہ لفظ اللہ اور الا اللہ کے ہم معنی تھا ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد تخاہ اور تخیاہ حق پرست لوگوں کا کلمہ طریق ہو گیا۔ دیواہ اور کالی واہ منسوخ کر دیا گیا مگر کچھ لوگوں نے اس منسوخی کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی تخریبی طرز فکر کے لئے اسی کو کلمہ طریق بنائے رکھا اور ان لوگوں کے انکار کی وجہ سے یہ استدراج کا کلمہ طریق بن گیا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کئی صدیاں پہلے اللہ اور الا اللہ کو کلمہ حق قرار دیا گیا۔ تخاہ اور تخیاہ کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک حق پرست لوگوں کا کلمہ طریق اللہ اور الا اللہ ہے اور قیامت تک برقرار رہے گا۔ اس کے برعکس ذریت ابلیس اور شیطنت کے پیروکاروں نے ابھی تک’’دیواہ اور کالی واہ‘‘ کو اپنا کلمہ طریق بنایا ہوا ہے۔
علم اور اس کی طرزوں کی تشریح قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں کی گئی ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حق کا نمائندہ بنا کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تو فرعون نے پیغمبرخدا کے معجزات کو استدراجی علوم پر قیاس کیا چنانچہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادو گر قرار دے کر اپنے ملک کے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر لیا تا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کر کے انہیں زیر کریں۔
مقابلے کے دن میدان میں ایک طرف اللہ کے پیغمبر حق کے نمائندے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کھڑے تھے اور دوسری طرف ذریت ابلیس استدراج کے نمائندے جادوگر۔
جادوگروں نے اپنی رسیاں، بان اور لاٹھیاں پھینکیں جو سانپوں اور اژدھوں کی صورت اختیار کر گئیں اس کے مقابلے میں وحی الٰہی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینکا اور وہ اژدھا بن کر تمام طلسمی سانپوں اور اژدھوں کو نگل گیا۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ جادو گر اپنی رسیاں پھینکتے ہیں تو یہ سانپوں اور اژدھوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنا عصا زمین پر ڈالتے ہیں تو وہ اژدھا بن جاتا ہے۔ یہاں تک تو جادوگروں کے فن اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا لیکن ایک قدم آگے بڑھ کر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ جادوگروں کے فن پر غالب آ جاتا ہے۔
جادوگروں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ مقابلہ استدراجی اور رحمانی علوم کے درمیان فرق کی ایک واضح تشریح ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ جادوگر اپنے علم سے فرعون کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مشن مخلوق خدا کی خدمت اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ ان کو جو علوم ملے ہیں وہ اللہ کے عرفان تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔
کتاب ٹیلی پیتھی میں ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ اس کلمہ طریق اور طرز فکر کے تحت ہے جو انبیاء اور اولیاء اللہ کی طرز فکر ہے۔ کیونکہ واردات و کیفیات سے پہلے ٹیلی پیتھی کے طالب علم کے ذہن میں تعمیری طرز فکر کا پیٹرن بنا دیا جاتا ہے اس لیے جو کچھ واردات و کیفیات میں سامنے آ تا ہے وہ اس پیٹرن کے مطابق ہوتا ہے۔ یہی تعلیم اگر کوئی شخص ذریت ابلیس کے کلمہ طریق کے مطابق حاصل کرے تو یہ سب علم روحانیت کی بجائے علم استدراج بن جاتا ہے۔ تمام پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک سب کی تعلیمات یہی رہی ہیں کہ انسان استدراجی قوتوں سے محفوظ رہے اور رحمانی قوتوں سے متعارف ہو کر اپنا عرفان حاصل کر لے۔ اس لئے کہ رحمانی قوت اور طرز فکر میں تعمیر ہے۔ اس کے برعکس تخریب توڑ پھوڑ، سفاکی، درندگی اور نوع انسانی کو تکلیف پہنچانے کا نام استدراج ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 226 تا 229
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔