صبر اللہ کا نور ہے
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19370
صبر اللہ کا نور ہے۔ جو مادی حواس میں نورانیت داخل کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب کر دیتا ہے۔ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنی تدابیر اور کوششوں کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اپنے ارادے کی نفی کر کے اللہ کو قادر مطلق جان لے اور اپنے کاموں میں تاخیر اور ناکامی پر اللہ تعالیٰ کے ارادے اور فیصلے کا انتظار کرے۔ قدرت کی جانب سے جو کچھ حاصل ہو اور اس پر راضی ہو جائے۔ صبر کا پورا سسٹم فرمانبرداری کو ذہن میں راسخ کرنے کا پروگرام ہے۔ صبر کرنے سے آدمی خود کو قدرت کے ہاتھوں میں مجبور اور بے بس ہونے کا تجربہ کر لیتا ہے۔ صبر کرنے سے آدمی کے اندر نو کی مقداریں داخل ہو جاتی ہیں۔ جب بندہ صبر کرنے کا خوگر ہو جاتا ہے تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ بندہ کا رابطہ مستقل طور پر اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ نے اولوالعزم کہا ہے۔
ارشاد ہے:
’’آپﷺ صبر کیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا۔‘‘
(سورۃ الاحقاف۔ ۳۵)
صبر آدمی کو اولوالعزم بناتا ہے۔ جو پیغمبروں کی صفت ہے۔ صبر زندگی کے آداب سکھاتا ہے۔ صبر بندے کو اسفل سے علین کی جانب لے جانے والی قوت ہے۔
’’اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوروں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے۔ تو صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دو۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ ۱۵۵)
’’ہاں جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کئے یہی ہیں جن کیلئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔‘‘
(سورۃ ہود۔۱۱)
’’اور صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ اور بے شک (یہ کام) دشوار ضرور ہے۔ مگر ان لوگوں پر (دشوار نہیں) جو عجز کرنے والے ہیں۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔45)
”ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کا ہی مال ہیں۔اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔”
(سورۃ بقرہ۔156)
’’اور ان میں سے ہم نے پیشوا بنائے تھے۔ جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے۔ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔‘‘
(سورۃ السجدہ۔ ۲۴)
’’ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا۔ کیونکہ صبر کرتے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے رہے ہیں۔ اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ القصص۔۵۴)
’’یقیناً تم آزمائے جاؤ گے اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ اور یقیناً تم سنو گے ان سے جنہیں دی گئی کتاب۔ تم سے پہلے۔ اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا اذیت دینے والی بہت باتیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ تو بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔۱۸۶)
’’اے ہمارے رب! اتار ہم پر صبر اور جمائے رکھ ہمارے قدموں کو اور فتح دے ہمیں قوم کفار پر۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔۲۵۰)
’’بار ہا چھوٹی جماعتیں غالب آتی ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے۔ اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ ۲۴۹)
’’اگر پہنچے تمہیں کوئی بھلائی تو بری لگتی ہے انہیں۔ اور اگر پہنچے تمہیں کوئی تکلیف تو خوش ہوتے ہیں اس سے۔ اور اگر تم صبر کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو تو نہ نقصان پہنچائے گا تمہیں ان کا فریب کچھ بھی۔ بے شک اللہ تعالیٰ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ ۱۲۰)
’’اور کہتے ہیں کہ نبی گزرے ہیں کہ جہاد کیا ان کے ہمراہ بہت سے اللہ والوں نے۔ سو نہ ہمت ہاری انہوں نے بوجہ ان تکلیفوں کے جو پہنچیں انہیں اللہ کی راہ میں۔ اور نہ کمزور ہوئے۔ اور نہ انہوں نے ہارمانی۔ اور اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے صبر کرنے والوں سے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ ۱۴۶)
’’مدد فرمائے گا تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتوں سے جو اتارے گئے ہیں۔ ہاں کافی ہے۔ بشرطیکہ تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
(سورۃ آل عمران: ۱۲۴۔۱۲۵)
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ انہیں ہم ٹھہرائیں گے جنت کے بالاخانوں میں۔ رواں ہونگی جن کے نیچے نہریں۔ وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کتنا عمدہ صلہ ہے نیک کام کرنے والوں کا۔ وہ جنہوں نے صبر کیا۔ اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔‘‘
(سورۃ العنکبوت: ۵۸۔۵۹)
’’اور اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اور آپس میں نہ جھگڑو۔ ورنہ تم کم ہمت ہو جاؤ گے۔ اور اکھڑ جائیگی تمہاری ہوا۔
اور صبر کرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورۃ انفال۔ ۴۶)
’’اور آپ صبر کیجئے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ نیکیوں کے اجر کو۔‘‘
(سورۃ ہود۔ ۱۱۵)
’’جنہوں نے ہجرت کی بڑی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد۔ پھر جہاد بھی کیا۔ اور صبر سے کام لیا۔ بیشک آپ کا رب ان آزمائشوں کے بعد بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(سورۃ النحل۔ ۱۱۰)
’’اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل۔ یہ سب صبر کرنے والے تھے اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ بلاشبہ وہ نیک تھے۔‘‘
(سورۃ انبیاء: ۸۵۔۸۶)
’’جب وہ بچہ اسماعیل ان کے ساتھ چلنے پھرنے دوڑنے کی عمر کو پہنچا۔ تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ وہی کیجئے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنیوالوں میں پائیں گے۔‘‘
(سورۃ الصٰفٰت۔ ۱۰۲)
’’کہنے لگے ابا ہم سب تو آپس میں دوڑنے میں لگ گئے۔ اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا۔ پس ایک بھیڑیا اس کو کھا گیا۔ اور آپ تو ہمارا کاہے کو یقین کرنے لگے گو ہم کیسے ہی سچے ہوں اور یوسف کی قمیض پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے تھے۔
یعقوب نے فرمایا، بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے میں صبر ہی کروں گا۔ جس میں شکایت کا نام نہ ہو گا۔ا ور جو باتیں تم بتاتے ہو اس میں اللہ ہی مدد کرے گا۔‘‘
(سورۃ یوسف: ۱۷۔۱۸)
’’بے شک ہم نے ان کو صابر پایا۔ اچھے بندے تھے کہ بہت رجوع ہوتے تھے۔‘‘
(سورۃ ص۔ ۴۴)
’’اور آپ ہمارے بندے ایوب کو یاد کیجئے۔ جب کہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے۔ اپنا پاؤں مارو۔ یہ نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے۔ اور پینے کا۔ اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا۔ اور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بھی۔ اپنی رحمت خاصہ کے سبب اور اہل عقل کے لئے یادگار رہنے کے سبب سے اور تم اپنے ہاتھ سے ایک مٹھا سینکوں کا لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔‘‘
(سورۃ ص: ۴۱۔۴۴)
’’اور ایوب کا تذکرہ کیجئے۔ جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے۔ اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں۔ ہم نے ان کی دعا قبول کی۔ اور ان کو جو تکلیف تھی اس کو دور کر دیا۔ اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا۔ اور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بھی اپنی رحمت خاص سے اور عبادت کرنے والوں کے لئے یاد گار رہنے کے سبب سے عطا فرمائے۔‘‘
(سورۃ الانبیاء: ۸۳۔۸۴)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 241 تا 245
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔