شفاعت کیا ہے؟
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17861
شفاعت کو سمجھنے کے لیےیہ مثال سمجھو کہ جیسے کسی کو امتحان میں پاس کرنے کے لیے 100 میں سے 33 نمبر ضروری ہیں۔ اس سے کم ملے تو وہ فیل ہو گا۔ اب اس کے صرف 30 نمبر آئے تو ممتحن اس کو تین نمبر رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیتا ہے جس کا اس کو قانون کی رُوسے اختیار ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ پیغمبروں اور نبیوں اور جن لوگوں کو بھی شفاعت کی اجازت فرمائیں گے وہ نیک لوگ یا پیغمبر جن کی شفاعت کرنا مقصود ہو گی اس کا اعمال نامہ چیک کریں گے اگر موت کے بعد سے قیامت تک اس نے تقریباً پون حصہ سزا بھگت لی ہو گی تو پھر اس کی سفارش خدا سے کر کے اسے جنت میں داخل کروا دیں گے۔ روح کا احساس ہم لوگوں کی نسبت ستر ہزار گنا زیادہ ہے اسی لیے وہاں کے عذاب بھی سخت ترین ہیں۔یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کا حکم دیتے ہیں کہ فلاں کام ہو جائے اور وہ ہو جاتا ہے لیکن اس کا ہر حکم بجا لانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور ہر کام کرنے کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے ہر کام نہیں ہو جاتا۔ ہر کام اور ہر چیز کی مثال دنیا میں موجود ہے۔ دنیا میں کروڑ ہا لوگ ہیں جو ہر وقت خدا سے کسی نہ کسی چیز کی دعا کرتےرہتے ہیں ، خدا ان کا کام کرتا ہے، سب کی سنتا ہے لیکن ہر کام کے لیے وقت درکار ہے اسی لیے خدا نے صبر کی تلقین کی ہے۔
یہ خط لکھ کر میں سو گئی۔ مجھے پھر سخت نیند آ رہی تھی، سونے میں خواب دیکھا اب یہ خواب اور اس کی تشریح جو مجھے الہامی ذریعے سے بتائی گئی ہے پیشِ خدمت ہے۔ میں نے دیکھا کہ میں وادیِ واحدانیت میں اُڑ رہی ہوں۔ ایک مردِ حق مجھ سے آگے آگے جا رہا ہے ، یہ تن درست اور خوبصورت جوان ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان لڑکی اُڑ رہی ہے وہ مردِ حق اس وادی کا ایک راستہ اس لڑکی کو بتاتا جا رہا ہے۔ میں اور وہ لڑکی اس کے کہنے کے مطابق اسی سمت اُڑتے جا رہے ہیں اور راستے میں سب کچھ دیکھتے جا رہے ہیں۔ وہ دونوں مجھ سے آگےہیں اور میں ان کے پیچھے ہوں۔ یہاں یارانِ طریقیت کا بازار گرم ہے اور مرغِ بسمل ٹکے ٹکے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ایک دکان پر میں رکی، دیکھا کہ ایک عورت اور ایک آدمی جو اس دکان کے مالک ہیں مجھے آواز دے کر کہہ رہے ہیں کہ یہ مرغِ بسمل لے جاؤ، یہ بہت اچھا ہے، بڑا سستا ہے، مجھے بڑا سستا لگا کیونکہ اس کی قیمت صرف دو پیسے تھی۔ وہ بہت تندرست مرغ تھا جس کی پیٹھ کے بال و پر غائب تھے جیسے نُچے ہوئے ہوں اور گلابی کھال نظر آ رہی تھی۔ مجھے بڑا ترس آیا کہ اچھا خاصا مرغ ہے، قیمت صرف دو پیسے ہے۔ دنیا میں اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ سوچتی ہوں خرید لوں پھرسوچا کیا کروں گی۔ میرے پاس تو پہلے ہی سب کچھ موجود ہے۔ ہم یہاں سے آگے اُڑے۔ جگہ جگہ دیواریں سی تھیں۔ ان دیواروں کے ساتھ ساتھ جڑوں کی شکل کی نلکیاں نظر آئیں۔ وہ اوپر چھت سے جُڑی ہوئی تھیں، ان نلکیوں میں سے سیال قسم کی کوئی چیز بہہ کر نیچے سے اوپر جا رہی تھی۔ ہر طرف نور ہی نور تھا۔ وہاں ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ یارانِ طریقت کا بازار تو بالکل شروع میں تھوڑی سی جگہ میں تھا۔ سیر کرتے کرتے آگے چلے تو ایک جگہ کچھ اونچے چبوترے پر ککڑی کی بیل چھائی ہوئی تھی۔ وہ نوجوان ہمیں اس بیل کے پاس لے گیا، کہنے لگا یا وادی وحدانیت کا پھل ہے۔ دیکھو کوئی ککڑی شاید ثابت مل جائے۔ جگہ جگہ ککڑیاں لگی ہوئی تھیں لیکن کوئی صحیح سالم نہ تھی۔ کسی میں کیڑا لگا ہوا تھا اور کوئی کٹی پھٹی تھی۔ بڑی مشکل سے میری نظر ثابت ککڑیوں پر پڑی جو پتوں کے نیچے چھپی ہوئی تھیں۔ وہ چبوترے کے بیچ میں تھیں۔ میرا ہاتھ ان تک نہ پہنچتا تھا۔ وہ نوجوان کہنے لگا ٹھہرو میں چبوترے پر جا کر لے آتا ہوں۔ وہ گیا اور تین بالکل ثابت ککڑیاں لےآیا۔ خوب تروتازہ ، خوب موٹی اور لمبی لمبی اور انہیں سینے سے لگا کر کہنے لگا یہ میری ہیں۔ میں نے کہا یہ میری ہے میں یہاں اسی لیے آئی ہوں۔ اس کے ساتھ والی لڑکی بولی ہاں یار محمد یہ ککڑیاں اسی کو دے دو، یہ اسی کی ہیں تمہارے لیے تو پورا باغ لگ رہا ہے۔ اس قدر وسیع و عریض باغ۔ اس باغ کا سارا پھل تم کو ہی ملے گا۔ ذرا انتظار کرو اللہ نے یہ ککڑیاں اسی کےلیے تو رکھی تھیں۔ اس نوجوان نے حسرت اور رشک سے میری طرف دیکھا اور ککڑیاں یہ کہہ کر دے دیں میں یہاں لاکھوں برس سے اُڑ رہا ہوں یہاں کے چپے چپے سےواقف ہوں، باوجود تلاش بسیار کے یہاں کا پھل مجھے اب تک نہیں ملا۔ اس لڑکی نے میرا تعارف اس سے کروایا، وہ مجھے واپس باہر لے گئی اور اس نے پہلے ایک ککڑی دے کر کہا ” یہ اللہ کی رحمت ہے”۔ پھر دوسری دے کر کہا ” یہ شفقت ہے”۔ پھر تیسری جو سب سے زیادہ لمبی تھی بل کھا ئی ہوئی تھی ، دے کر کہا “یہ اللہ کی محبت ہے اسے سنبھال کر رکھنا”۔ میں نے کہا انشآاللہ میں انہیں خوب سنبھال کر رکھوں گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 128 تا 131
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔