شعُوری دبستان
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6241
زندگی کے ماہ و سال کا تجزیہ کرنے سے ہمیں نظر آتا ہے کہ زندگی اربوں کھربوں کل پرزوں سے بنی ہوئی ایک مشین ہے۔ جس طرح انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی چھوٹی بڑی مشین توانائی اور موبل آئل کی محتاج ہے، اسی طرح انسانی پنجرے میں بند مشین بھی توانائیوں اور جب چکنائیوں کی محتاج ہے۔ جس طرح لکڑی، لوہے یا کسی دھات کی مشین فیڈنگ کے بغیر بے کار ہے، اسی طرح انسانی مشین کو فیڈ نہ کیا جائے تو اس کا ایک ایک عضو (PARTS) معطّل اور بے کار ہو جاتا ہے۔
کیا خوب تماشا ہے!
آدمی کہتا ہے، میرا دل۔ آدمی کہتا ہے، میرا دماغ، آدمی کہتا ہے میرے گُردے، دل، دماغ، گُردوں کو ایک نادیدہ توانائی بلا کسی توقف کے چلا رہی ہے اور اِن بنیادی پرزوں کے ساتھ اربوں، کھربوں پُرزے () خود بخود متحرک ہیں۔ مگر آدم زاد کی کوتاہ نظری کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اندر آواز کے ساتھ، جھٹکے کے ساتھ، تیز اور مدھّم رفتار کے ساتھ چلنے والی مشین کو نہیں دیکھ سکتا۔ اس کی آواز سُن نہیں سکتا۔ مشین کو چلانے والی توانائی کا غیر مرئی سلسلہ اگر منقطع ہو جائے تو اسے بحال نہیں کر سکتا۔
توانائی کا کام خود جل کر مشین کو مسلسل حرکت میں رکھنا ہے۔ توانائی کا صَرف اگر اعتدال میں رہے تو زندگی بڑھ جاتی ہے۔ توانائی ضائع ہونے لگے تو زندگی کے چراغ کی لو مدھم پڑجاتی ہے پھر یہ چراغ ایک ہی دفعہ بھڑک کر بجھ جاتا ہے۔
آگ کے شعلے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک طرح کے شعلوں سے ہر چیز خاکستر ہو جاتی ہے اور دوسری طرح کے شعلوں سے ہر چیز کے اندر زندگی دوڑنے لگتی ہے۔ آدم زاد جب خیر کی روشنیوں سے اپنی آبیاری کرتا ہے تو یہ بھڑکتے ہوئے شعلے گلزار بن جاتے ہیں اور آدم زاد جب شر کے خمیر سے اپنی آباری کرتا ہے تو یہ شعلے اسے جہنّم کی آگ میں دھکیل دیتے ہیں۔
خیر اور شر کیا ہے؟ طرزِ فکر کے دو نام ہیں۔ طرزِ فکر میں اگر بندگی اور اللہ کے ساتھ محبت ہے تو یہ خیر ہے۔ طرزِ فکر میں اگر غیر اللہ کی محبت ہے تو یہ شر ہے۔ خیر قائم بالذات (جلّ جلالہُ) ہے اور شر قائم بالشیطان ہے۔ خیر کی تعریف یہ ہے کہ اللہ اُسے پسند کرتا ہے۔ اس کے بر عکس شر یہ ہے کہ اللہ اُسے پسند نہیں کرتا۔
آئیے ! آج کی نشست میں کائنات کا نہیں، کائنات کے کل پُرزے انسان کا مطالعہ کریں —–!
شعور میں داخل ہونے سے پہلے کوئی انسان باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا سے واقف نہیں ہوتا شعوری دبستان میں قدم رکھتے ہی انسان کےاندر نیآجوش اور نئے ولولے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اندر تخلیقی صلاحیتوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ تخلیقی ک صلاحیتیں اُسے بالاخر ایسے نقطے پر لے آتی ہیں جس نقطے کا آغاز ہی نئی نئی تخلیقات سے ہوتا ہے۔ کوئی بندہ جب اس نقطے میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اند باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا کے سُوتے پھوٹنےلگتے ہیں۔ نتیجے میں وہ باکل اپنی جیسی جیتی جاگتی تصویر بنایتا ہے۔ یہ تصویر بھی انسانی مشین کا ایک پُرزہ ہے اور اس پُرزے کی فیڈنگ کے لیئے ایک آٹومیٹک نظام جاری و ساری ہے۔ آدم زاد اس تصویر کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیئے وسائل کی تلاش کرتا ہے اور وسائل کی تلاش میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس سے خود آگاہی منحرف ہو جاتی ہے۔
تصویر کو اللہ تعالےٰ نے اولاد اور وسائل کو اموال کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مال اور اولاد انسان کے لیئے فتنے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اللہ تعالےٰ مال اور اولاد کو فتنہ کہتا ہے۔ اور بندہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ، اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اور اپنی پوری دانائی کے ساتھ اس فتنے سے قریب ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو فتنا کیوں کہا ہے؟
یاد رکھئے ! ہر وہ چیز جو عارضی ہے حقیقت نہیں ہوتی اور جو چیز حقیقی نہیں ہے وہ حق سے قربت حاصل نہیں کر سکتی۔ مال ہو یا اولاد یہ سب عارضی اور غیرحقیقی تصویریں ہیں۔ بندو جب ان عارضی اور غیر حقیقی تصویروں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو یہ سب اس کے لیئے مصیبت اور فتنہ بن جاتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 190 تا 192
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔