شجر ممنوعہ کی روحانی تفسیر
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=29652
سوال: مذہبی روایات میں یہ بات وارد ہوئی کہ آدمؑ پہلے جنت میں تھے مگر بعد میں اپنی غلطی کے باعث زمین پر آ گئے۔ آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا تھا مگر شیطان نے انہیں بہکایا اور انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ درخت گیہوں کا تھا، کسی کے نزدیک یہ سیب کا درخت تھا۔ درخواست ہے کہ آپ اس بات پر روحانی نقطہ نظر سے روشنی ڈالیں کہ یہ کون سا درخت تھا؟ اور اس کے قریب جانے سے آدم علیہ السلام کیوں ظالم قرار دے دیئے گئے؟
جواب: قرآن پاک میں اس درخت کا کوئی نام نہیں لیا گیا ہے۔ صرف درخت کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ روحانی نقطہ نظر سے جب لاشعوری واردات و کیفیات میں اس درخت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو دراصل یہ طرز فکر کا سمبل ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں آدم علیہ السلام کی ان دونوں حالتوں کا تجزیہ کرنا پڑے گا جو جنت اور زمین پر ہیں۔ اس لئے کہ وہ درخت ہی ہے جس نے آدم علیہ السلام کو ایک حالت سے دوسری کیفیت میں داخل کر دیا۔
سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں جہاں چاہو رہو اور خوش و خرم جہاں سے جی چاہے کھاؤ البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظلم کے خصائل میں گرفتار ہو جاؤ گے۔
‘‘حَيْثُ شِئْتُمَا‘‘ جس جگہ چاہو(حیث بہ معنی اسپیس) ان دو لفظوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسپیس کو آدم علیہ السلام کا محکوم کر دیا گیا تھا۔ حیث یا اسپیس کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے چنانچہ جنت میں آدم علیہ السلام کی یہ حیثیت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت کے لامحدود رقبے پر تصرف عطا کر دیا تھا یعنی آدم علیہ السلام کے لئے جنت کا وسیع و عریض رقبہ، ٹائم اور اسپیس سے آزاد تھا لیکن پھر۔۔۔۔۔۔
’’شیطان نے ان کو گمراہ کر دیا اور جس آرام میں وہ تھے اس سے محروم کر دیا۔ ہم نے کہا تم سب اسفل میں دفع ہو جاؤ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک معینہ مدت تک زمین کو مستقر بنا کر چلانا ہو گا۔‘‘ (القرآن)
لیکن جب یہی آدمؑ اسفل میں پہنچتا ہے تو اس کی پوزیشن بالکل متضاد ہو جاتی ہے ۔ اس طرح کہ اسپیس اس پر حاوی ہے۔ قدم قدم پر اس کو وسائل کی پابندیاں گھیرے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ انسان وسائل کے ہاتھ کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ جنت میں یہ ہو رہا ہے کہ جو کچھ جنت میں موجود ہے وہ دروبست آدمی کے ارادے کے تابع ہے۔ آدمی کا دل چاہا کہ وہ سیب کھائے لیکن سیب کا کاشت کرنا اور توڑنا زیر بحث نہیں آتا۔ سیب کھانے کو دل چاہا اور سیب موجود ہو گیا۔ پانی پینے کو دل چاہا پانی موجود ہو گیا۔ اس طرز فکر میں تصرف کی دو طرزیں سامنے آتی ہیں۔
تصرف کی ایک طرز یہ ہے کہ ایک بندہ سیب کا درخت لگاتا ہے اس کی نشوونما کا انتظار کرتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد سیب کا درخت اس قابل ہوتا ہے کہ اس پر پھل لگے۔ اس کے اندر سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ درخت کی طرف چلتا ہے اور درخت پر سے سیب توڑ کر کھا لیتا ہے۔
تصرف کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیب، درخت پر لگے ہوئے ہیں۔ اس درخت کو نہ کسی بندے نے زمین پر بویا ہو نہ اس کی نگہداشت کی ہے نہ اس درخت کو پروان چڑھانے میں کوئی خدمت انجام دی ہے اور نہ اسے درخت پر سے سیب توڑنے کی زحمت کرنی پڑی ہے۔ دل چاہا کہ سیب کھاؤں اور سیب موجود ہو گیا۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک انسانی صلاحیتیں زمان و مکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر کام کرتی ہیں۔ وہ سب جنت کی زندگی ہے اور جب انسانی صلاحیتیں اسپیس میں بند یا قید ہو کر کام کرتی ہیں تو یہ ساری زندگی اسفل کی زندگی ہے۔ ہر انسان کے اندر جنت اور اسفل کی زندگی ہر لمحہ متحرک رہتی ہے۔ کبھی جنت کی زندگی یعنی اسپیس (مکان) سے آزاد زندگی کا غلبہ ہو جاتا ہے اور کبھی اسفل زندگی یعنی مکانیت میں قید زندگی حواس پر غالب آ جاتی ہے۔ روحانی انسان اسفل زندگی کے غلبہ کو ختم کر کے، اعلیٰ اور جنت کی زندگی کے حواس کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس جدوجہد میں پہلا سبق یا پہلی کلاس کو’’مراقبہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 220 تا 222
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔