شاہکار تصویر
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6233
فرض کیجئے کہ:
آپ ایک مصوّر ہیں اور تصویر کشی سے متعلق اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ایک تصویر بناتے ہیں۔ یہ تصویرآپ کی زندگی کے ماہ وسال اور شب و روز کا حاصل شاہکار ہے۔ تصویر پوری ہونے کے بعد آپ جب اُسے دیکھتے ہیں تو آپ خود اس کے اُوپر فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ آپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرا کوئی شخص جب اس تصویر کو دیکھے تو اس کی تعریف کرے۔
آپ نے ایسی زندہ جاوید تصاویر دیکھی ہوں گی کہ جن کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ تصویر ابھی اپنے کاغذی پیرہن سے نکل کر ہم کلام ہو جائے گی۔
یہ بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ بارہ سال کا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں خالی الذّہن تھا یکسوئی اس مقام پر تھی جہاں آدمی کسی ایک نقطہ پر مرکزیت حاصل کر کے ماحول سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
اخبار میں چار رنگوں سے چھپی ہوئی بہت خوبصورت تصویر کے خدوخال شعور کی سیڑھیاں پھلانگ کر جب لاشعور کے کمپیو ٹر (COMPUTER) میں داخل ہوئے تو خیال نے کروٹ بدلی۔ جیسے ہی خیال نے کروٹ بدلی، ارادہ متحرک ہوگیا اور ارادہ نے چاہا کہ کاغذی پیرہن پر بنی ہوئی تصویر کے نقش و نگار۔۔۔۔ غزالی آنکھیں، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، کتابی چہرہ پر شفق رنگ گلدستہ کی طرح ناک اور سر جیسا سراپآجس آدمی کے ذہن سے اس کاغذ پر منتقل ہوا ہے اس آدمی کے اندر قدرت نے تخلیقی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔
اس سوچ نے میرے اندر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کو متحرک کر دیا ۔ اور تصویر کاغذ کے اندر سے نکل کرمیرے سامنے آکھڑی ہوئی۔
اور پھر جس طرح کاغذی بساط سے اُتری تھی اسی طرح اپنے پیروں سے چل کر کاغذ کے اندر جذب ہوگئی۔ اس حقیقت سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ کاغذ کے اوپر تصویری خدوخال نقش و نگار، حسن، کشش، جذب، گداز، شگفتگی سب جاندار ہیں۔ اور جب تخلیقی اختیارات ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر ارادہ بن جاتے ہیں تو یہ نقش و نگار شکل و صورت اختیار کر کے ایک جسم بن جاتے ہیں۔
تصویر بنا نے والا فن کار جب کوئی اپنا شاہکار تخلیق کرتا ہے تو دراصل اس کی رُوح کے اندر موجود تخلیقی فارمولے (EQUATION) متحرک ہو کر مظہر بن جاتے ہیں۔ یہ تصویر کشی ایک ایسے فن کار نے کی ہے جو خود تخلیق ہے۔
اللہ تعالیٰ بھی ایک مصوّر ہے۔ وہ بھی ایسی تصویر کشی کرتا ہے کہ خود اپنی شان میں قصیدہ کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
“اللہ وہ ہے جس نے ماں کے پیٹ میں تصویر بنائی اور سبحان اللہ کیا تصویر بنائی۔” (قرآن)
اگر مصوّر سے یہ کہا جائے کہ وہ تصویر کے پُرزے اڑا دے تصویر کے خدوخال کو مسخ کر دے یآجس کینوس (CANAVAS) یآجس کاغذ پر تصویر بنائی ہے اُس کو پھاڑ دے، مصوّر کے لیئے اس سے بڑی رنج اور تکلیف کی کوئی بات نہیں ہو گی اور وہ کبھی اپنی شاہکار تصویر کو خراب نہیں ہونے دے گا اور نہ اس کا خراب ہونا، اس کا مسخ ہونا اُسے پسند آئے گا۔
اللہ نے ایک تصویر بنائی، ایسی خوبصورت تصویر جو اپنے توازن، اعتدال، معین مقداروں، رنگ و روپ، جذب و کشش، اور حُسن کے معیار میں منفرد ہے، یکتاہے، بے مثال ہے۔ یہ تصویر دیکھتی بھی ہے، سنتی بھی ہے، بولتی بھی ہے، محسوس بھی کرتی ہے اور دوسروں کا دکھ درد بھی بانٹتی ہے۔ اگر کوئی بندہ اس تصویر کو داغ داغ کرنا چاہے اور اپنے ظلم و جہالت سے تصویر کو خراب کر دے تو یقیناً یہ بات سب سے بڑے مصوّر اللہ کے لیئے نہایت ناپسندیدہ عمل ہے۔
تمام آسمانی کتابوں میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالےٰحقوق العباد معاف نہیں کرتے۔ جب ہم حقوق العباد کا تزکرہ کرتے ہیں تو پہلے خود بندے پر اپنا حق عائد ہوتا ہے اس لیئے کہ بندہ پہلے خود بندہ ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں جس کو آسمانی علوم کے مطابق بلا شبہ عدم تحفظ، بے سکونی، انتشار اور پیچیدہ مسائل کا تنزل یافتہ دَور کہا جا سکتا ہے، ہر آدمی سونے کے سکّوں کا ذخیرہ کرنے کے لیئے اپنی حق تلفی کر رہا ہے، اپنے جسم و جان کو تباہ کررہا ہے۔ جیسے جیسے بندے کے اندر دنیا کا لالچ اور ہوسِ زر بڑھ رہی ہے اسی مناسبت سے اس کے اندر سے سکون، راحت اور اطمینانِ قلب ختم ہو رہا ہے۔ سکون اور اطمینانِ قلب سے محرومی، دماغی کشمکش، ذہنی کشاکش اور اعصابی تناؤ کا پیش خیمہ ہے۔ اعصابی تناؤ آدمی کے اندر ڈر اور خوف مسلّط کر دیتا ہے۔ زندگی میں غم اور خوف کی آمیزش آدمی کی تصویر کو بد صورت، بدمست اور مسخ کرتی رہتی ہے۔
ہائے یہ کیسی نادانی ہے کہ آدم زاد ہوسِ زر میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی من موہنی خوبصورت تصویر کو خراب کر رہا ہے، ضائع کر رہا ہے۔ تباہ کر رہا ہے۔ سونے چاندی کے سکّے اللہ تعالیٰ نے اس لیئے نہیں بنائے کہ یہ سکّے آدمی کی زندگی کو دیمک بن کر چا ٹ جائیں۔ سونے چاندی کے سکّوں کا مصرف یہ ہے کہ آدمی ان سے استفادہ کر کے اللہ کی بنائی ہوئی تصویر کے لیئے زیب و زینت کا سامان مہیا کرے۔ لیکن موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ آدمی یہ ثابت کرنے پر بضد ہے کہ سونے چاندی کے سکّے آدم کے لیئے نہیں بلکہ آدمی سونے چاندی کے سکّوں کی بھینٹ چڑھنے کے لیئے پیدا ہوا ہے۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
“اور وہ لوگ جو سو نا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لیئے خرچ نہیں کرتے اُن کے لیئے درد ناک عذاب ہے۔”
کیا یہ کم عذاب ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ آدمی سینکڑوں سال زندہ رہ کر دنیا کی رنگینی میں اپنا کردار ادا کرے اور آدمی کام، کام، صبح کام، شام کام اور ہائے دنیا، ہائے دنیا کے ختم نہ ہونے والے چکّر میں خود اپنے ارادہ اور اختیار سے زندگی کو مختصر ترین کرنے پر تلا ہوا ہے جب کہ آدم و حوا کی اولاد یہ جانتی ہے کہ زندگی کو ایندھن بنا کر جمع کی جانے والی ساری پونجی ایک دن موت ہم سے چھین لے گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 158 تا 161
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔