سیلاب
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6253
ہم جب مذہب کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو طرزِ فکر آتی ہیں۔ ایک طرزِ فکر کہ لوگ کم یاب ہے اور دوسری طرزِ فکر کہ لوگ اکثریت میں ہیں۔ دونوں گروہوں کا کہنا کہ وہ فضلِ الٰہی سے بہرہ اندوز ہیں۔ ایک طرزِ فکر کے لوگ اپنے نفس پر سختی کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لیئے شفیق ہوتے ہیں۔ ایک گروہ کے لوگ عام لوگوں سے اس قدر اس قدر دُور ہوتے ہیں کہ خیال ہوتا ہے یہ جبلّی تقاضوں سے بہت دور ہیں اور نہایت غلط راستے پر پڑ گئے ہیں۔ ایک گروہ میں جذباتی ہیجان اور اثر پذیری بہت زیادہ ہوتی ہے اور دوسرے گروہ کے افراد اخلاقی اور عملی زندگی کے دل دادہ ہوتے ہیں۔ دونوں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ کے لیئے کر رہے ہیں۔ لیکن دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ کے اوپر خوف اور غم ہمیشہ مسلّط رہتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے کہتا یہ ہے کہ غم اور خوف سے نجات حاصل کرنے کے لیئے ہے لیکن جیسے جیسے مذہب کے روپ میں عملی زندگی اس کے اوپر محیط ہوتی ہے وہ خوف اور دہشت و تذبذب کے جال میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔ تمام جذبے اس کے سامنے سرد پڑ جاتے ہیں اور جب جذبہ شدّت اختیار کر لیتا ہے تو اس جذبے کا حامل ہر فرد دوسرے فرد کو بھی اپنی طرح غم اور خوف میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے۔ عبادت و ریاضت کے ہر عمل کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ اس عمل سے ڈر اور خوف سے نجات ملے گی۔ کب ملے گی، اس کے بارے میں یقینی شہادت موجود نہیں ہوتی اور یقینی شہادت نہ ہونے کی بنا پر ایسا انسان اپنی شخصیت کھو بیٹھتا ہے۔
ایک جگہ سیلاب آیا جس میں سارا علاقہ ڈوب گیا۔ لیکن ایک ٹیلے پر پانی نہیں پہنچ سکا۔ انسان اور جنگل کے بہت جانور اور کیڑے مکوڑے اس ٹیلے پر پناہ لینے کے لیئے جمع ہو گئے۔ ایک شیر تیرتا ہوا اس ٹیلے کی طرف آیا اور کتّے کی طرح ہاپنتا ہوا لوگوں کے درمیان زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ اس قدر خوف زدہ تھا کہ اُسے گرد و پیش کا ہوش نہیں تھا۔ ایک آدمی اطمینان سے رائفل لے کر اس کی طرف بڑھا اور اس کے سر پر گولی مار دی۔ خوف کے جذبے سے شیر اپنی درندگی کی صفت کو بھی بھول گیا اور خو ف کے جذبے نے اسے بکری سے بھی زیادہ بُزدِل بنا دیا۔
ہم جب زندگی میں کام کرنے والے جذبات کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ جذبات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ گرد و پیش میں اگر خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی جائے تو لوگ خوف زدہ زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر گرد و پیش میں شجاعت اور بہادری کی فضا ہو تو لوگ بُزدِل شمار نہیں ہوتے۔ اس طرح گرد و پیش میں اگر تساہل، کسل مندی، لاپرواہی، کے عوامل کار فرما ہوں تو اس ماحول میں رہنے والے اکثر لوگ کاہل اور تساہل پسند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ماحول میں سے کسل مندی اور تساہل کو دُور کر دیا جائے تو اسی مناسبت سے لوگ با عمل ہو جاتے ہیں اور قوتِ اردی سے کام لے کر بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں۔
مثال۔ ایک آرام طلب عورت ہے جو کسی قسم کی زحمت گوارا کرنا نہیں چاہتی۔ وہ صبح سویرے بستر سے نہیں اٹھتی۔ دیر تک سونے کی عادی ہے۔ جہاں اس کو دقّت یا پریشانی نظر آتی ہے۔ اُدھر کا رُخ نہیں کرتی۔ لیکن یہی عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اس کے اندر انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ ماں کا جذبہ غالب ہونے کے بعد وہ راتوں کو جاگتی ہے۔ بغیر کسی عذر اور شکایت کے بچّے کی پرورش اور تربیت میں تکلیف کے خیال کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ اس کے برعکس بچّے کی وجہ سے کو جو بے آرامی ہوتی ہے وہ اس کے اندر کچھ کرنے کے احساس کو اور گہرا کر دیتی ہے۔ وہ ذاتی طور پر کتنی ہی کنجوس، بے مروّت اور خود غرض ہو لیکن بچّہ کے لیئے وہ ہمیشہ ایثار کرتی ہے۔
جو لوگ خوف زدہ زندگی سے آزاد نہیں ہیں وہ خود غرضی اور ہر قسم کے نفسانی اور شہوانی جذبات کی یلغار میں گھرے رہتے ہیں۔ یہ سفلی جذبات ان کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ خود پرستی اور شہوانی احساسات بالآخر ان کے اوپر جمود طاری کر دیتے ہیں اور جب وہ زندگی کے اس دور میں قدم رکھتے ہیں جہاں یہ جذبات جبلّی طور پر از خود سرد پڑ جاتے ہیں تو ان کے اوپر ایک ختم نہ ہونے والی بیزاری کی کیفیّت مسلط ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت سے نبرد آزما ہونے کے لیئے وہ ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جن طریقوں میں دوسرے لوگوں کے لیئے اذیّت اور تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ مثلاً وپ جب کسی دوسرے آدمی کو نیکی کی طرف راغب کرنے کی دعوت دیتے تو برملا کہتے ہیں تم نیکی نہیں کرتے۔ یعنی وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم نیکوکار ہیں۔ کوئی بات سمجھنے، سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ہوتی ہے۔ اگر وہ اس کو سمجھا نہ سکیں تو نفرت اور غصّے کا اظہار کرتے ہیں اوران کے اندر اس طرزِ فکر کی چھاپ اتنی گہری ہو جاتی ہے کہ ان کے چہرے مسخ اور بے نور ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے چہرے کی اسکرین پر ایک کربناک فلم چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسرا گروہ وہ ہے جس کی طرزِ فکر میں خوف نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے یا اس سے جو اعمال و افعال سرزد ہوتے ہیں ان کے پیچھے جہنم کا خوف نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا نصبُ العین محبانہ رابطہ اور خالق کے سامنے خوشی سے سرِ تسلیم خم کرنا اور اپنے تئیں اس کے حوالے کر دینا ہوتا ہے۔ ان کے اندر سے ہر قسم کا خوف اور اندیشہ نکل جاتا ہے اور سعادت آمیز سکون ان کی طبیعت میں راسخ ہو جاتا ہے۔ وہ ہردلعزیزی اور عزت و اقتدار کی تمنا کو اپنے لیئے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ جھوٹ اور منافقانہ عمل سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنے قول و فعل سے کسی کو دھوکہ نہیں دیتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کامل راستی برتتے ہیں۔ سچائی کوجس طرح دیکھتے ہیں اسی طرح بے دریغ بیان کر دیتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں، کمزوریوں اور خدشات کو قبول نہیں کرتے۔ سنجیدہ رہتے ہیں، سنجیدہ باتیں کرتے ہیں۔ اور اپنے آدم زاد بھائی اور بہنوں کو سنجیدہ طریقوں پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ جھوٹی عاجزی اور علم کی نمائش نہیں کرتے۔ بناوٹ اور غرور اُن سے دور بھاگتا ہے۔
مرکزِ جذبات کی درستگی سے انسان کیا اندر ایسی پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ رُوحانی ناسازیِٔ طبیعت اور زندگی کی بے آہنگی سے پاک ہو جاتا ہے۔ جسمانی شہوات اور بے حودہ خیالات سے دل پاک ہوتا ہے۔ دنیا کی آلائشوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ایسا بندہ اپنے بھائیوں بہنوں اور اللہ کی تمام مخلوق کے ساتھ محبت اور نرم دِلی کا رویّہ اختیار کرتا ہے۔ دشمنوں سے بھی محبت کرتا ہے اور بظاہر نظر آنے والے گھناؤنے انسانوں کے ساتھ بھی لطف و کرم سے پیش آتا ہے۔ مرکزِ جذبات کی نادرستگی سے انسان سختی، ناہمواری، منافقت، کورچشمی، کبر و نخوت، حرص و طمع اور احساسِ برتری یا احساسِ کمتری کا ایک فعّال کردار بن جاتا ہے۔ ایسا کردار جس کو شیطان ذریّتِ ابلیس میں شامل کر کے اس سے اپنے مشن کا کام لیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 234 تا 237
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔