سکون
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6203
تمام مذاہب کی یہ تعلیم عام ہے کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ امتحان میں کا میابی فرد اور قوم کے لیئے سکون و راحت کا ذریعہ ہے۔ جو فرد یا قوم امتحان میں فیل ہو جاتی ہے، نار جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔
دنیا عالمِ نسوت ہو، دنیا عالم نور(جنت) ہو۔ دونوں میں انسان کے لیئے آسائش و آرام کے سامان مہیا ہیں۔ گھر او بالا خانے جس طرح دنیا میں لوگوں کے لیئے پناہ گاہ ہیں اسی طرح جنت میں بھی محلات اپنے باسیوں کے لیئے منتظر ہیں۔ مٹی کے بنے ہوئے پھل فروٹ جس طرح یہاں ہمارے لیئے لذت کام و دہن ہیں، جنت میں بھی انگور، انار اور سیب بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس عالم آب و گِل میں عورت مرد کے لیئے اور مرد عورت کے لیئے جس طرح سکونِ قلبی، راحتِ دماغ بنے ہوئے ہیں، رنگ وروشنی کے عالم جنت میں بھی حور وغلماں کا وجود ہمارے سامنے ہے۔ آبِ شیریں اگر عالم سفلی میں ہمارے لیئے آب حیات ہے تو جنت بھی ہمارے سامنے آبِ کوثر پیش کرتی ہے۔ کیف و مستی اور رنج و غم زمان ومکان (Time & Space) کے بند پنجرے میں ہمارے اوپر وارد ہوتے ہیں۔ یہی دونوں رُخ اُس عالم میں جنت اور دوزخ کے نام سے جانے جاتےہیں۔
ہر انسان کے اندر سطحی اورگہری سوچ موجود ہے۔ تفکر جب گہرا ہوتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ہر آدمی جنّت اور دوزخ اپنے ساتھ لیئے پھرتا ہے۔ اور اس کا تعلق طرزِفکر سے ہے۔ طرزِفکر آزاد اور انبیاء علیہم السّلام کے مطابق ہے تو آدمی کی ساری زندگی جنّت ہے۔ طرزِفکر میں ابلیسیت ہے تو تمام زندگی دوزخ ہے۔
جس کے پاس زر و جواہر کے انبار ہیں وہ بھی دو رو ٹی کھاتا ہے اور ستر پوشی کے لیئے دو کپڑے پہنتا ہے۔ جس کے پاس دولت نہیں ہے وہ بھی دو روٹی کھاتا ہے اور دو کپڑے زیبِ تن کرتا ہے۔ جس کے پاس دس (۱۰) کمروں کا محل ہے وہ ایک چار پائی کی جگہ سوتا ہے۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ محل میں سونے والا آدمی سوتے وقت اتنا پھیل جاتا ہو کہ سونے کے لیئےایک چارپا ئی سے زیادہ جگہ کی ضرورت اسے پیش آئے۔
وسائل کی تقسیم میں فرق واقع کیا جا سکتا ہے مگر زندہ رہنے کے لیئے سب کی ضروریات یکساں ہیں۔ خورد و نوش کے لیئے سامان کا انبار ہو، روپے کی ریل پیل ہو، اس کے برعکس وسائل کمی کے ساتھ موجود ہوں۔ دونوں حالتوں میں یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ سکوں آشنا زندگی سے ہم کنار ہوں۔ سکوں آشنا زندگی سے ہم آغوش ہونے اور اطمینان قلب کے لیئےایک الگ طرزِفکر ہے اور وہ طرزِ فکر یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے واقف ہو۔ خود سے وقوف حاصل کرنا حقیقت پسندانہ عمل ہے اور حقیقت سے فرار فکشن (Fiction) اور مفروضہ زندگی ہے۔
آج ہم ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر روز نت نئے انکشافات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ کھوج کی اس دنیا میں انسان سمندر کی تہہ میں جا کر وہاں کے راز ہائے سربستہ عام کرنے کی فکر میں سرگرداں ہے۔ راز ہائے سربستہ کا متلاشی انسان ستاروں پر کمندیں ڈال چکا ہے۔ نئی تحقیق کی راہ، مریخ اب اس کے سامنے ہے۔ ان سب مشاہدات کے بعد انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ تحقیق و تلاش کا عمل اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گآجب تک انسان خود کو تلاش نہ کر لے۔ ضرورت ہے کہ اپنے اندر ماورائی صلاحیتوں کو دریافت کیا جائے۔ غیر مسلم اقوام نے اسی ارادے کے ساتھ اپنے شعور کی گہرائیوں میں سفر شروع کردیا ہے۔ انہیں ایک نئی بصیرت کی تلاش ہے جو آدم زاد کی ُپرآلام زندگی کی تشکیل نو کر سکے۔
بے قراری اور اضطراب سے رستگا حاصل کرنے کے لیئے، اسلاف سے جو ہمیں ورثہ ملا ہے اس کا نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ہم اپنے اندر مخفی صفات کو منظرِعام پر لا سکتے ہیں۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃٰ والسّلام اور تمام اولیاء اللہ کا معمول رہا ہے۔ آخری نبی ﷺ نے بعثت سے پہلے غار حرا میں ایک عرصہ تک مراقبہ کیا ہے۔
وجدانی کیفیات کے حصول کی غرض سے ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مراقبہ کرنے والوں کی تعداد دس لا کھ سے ذیادہ ہے۔ ان اعدادو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ جیسے خود کفیل ملک میں بھی سکون قلب حاصل کرنے اور زندگی کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارنے کے لیئے لوگ اولیاء اللہ کی طرز فکر کی طرف لوَٹ رہےہیں۔
مراقبہ کے ذریعے جہاں ہم خود اپنا ادراک کر سکتے ہیں، ماضی اور مستقل بھی ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب بن جاتا ہے اور اس ادراک کی روشنی میں خوش آئند زندگی ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 59 تا 61
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔