سوال نہ کیا جائے
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19486
حضرت خضر نے کہا:
’’تو پھر شرط یہ ہے کہ جب تک آپ میرے ساتھ رہیں کسی معاملے میں مجھ سے سوال نہ کریں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے منظور کر لیا۔ دونوں چل پڑے سمندر کے کنارے پہنچے حضرت خضر نے ملاحوں سے کرایہ پوچھا، وہ حضرت خضر کو پہچانتے تھے اس لئے کرایہ لینے سے انکار کر دیا اور اصرار کر کے دونوں کو کشتی میں سوار کر لیا، ابھی کشتی کو چلتے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی، حضرت خضر نے ایک تختہ اکھاڑ کر کشتی میں سوراخ کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ضبط نہ ہو سکا، کہا۔
’’کشتی والوں نے یہ احسان کیا کہ مفت میں سوار کر لیا اور آپ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ کشتی میں سوراخ کر دیا۔‘‘
حضرت خضر نے کہا:
’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میری باتوں پر صبر نہیں کر سکیں گے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’میں بھول گیا تھا، آپ درگزر کر دیں۔‘‘
کشتی کنارے لگی تو دونوں اتر کر ایک جانب روانہ ہو گئے۔ ایک میدان میں پہنچے کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر آگے بڑھے اور ان میں سے ایک بچہ کو قتل کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے برداشت نہ ہو سکا۔ کہا:
’’ناحق آپ نے ایک معصوم کی جان لے لی۔ یہ تو بہت برا ہوا۔‘‘
حضرت خضر نے کہا:
’’میں نے آپ سے شروع میں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر و ضبط سے کام نہیں لیں گے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’اس مرتبہ اور نظر انداز کر دیجئے اس کے بعد کوئی عذر نہیں رہے گا اور آپ مجھ سے علیحدہ ہو جائیں گے۔‘‘
دونوں چلتے رہے۔ چلتے چلتے ایک بستی میں پہنچ گئے، یہاں کے لوگ بہت مالدار تھے مگر دونوں کو مسافر رکھنے سے انکار کر دیا، بستی میں سے گزر رہے تھے کہ دیکھا ایک مکان کی دیوار جھکی ہوئی ہے جس کے گر جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت خضر آگے بڑھے اور دیوار کو درست کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’بستی والوں نے نہ ہماری مہمانداری کی اور نہ ہمیں ٹھہرنے کی جگہ دی، آپ نے بغیر اجرت کے دیوار بنا دی۔‘‘
حضرت خضرؑ نے کہا:
’’اس سفر میں میرا اور آپ کا ساتھ ختم ہوا۔ جو کچھ آپ نے دیکھا وہ منجانب اللہ تھا۔‘‘
پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان تینوں واقعات کے حقائق بتائے۔
سورہ کہف میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’بس اب مجھ میں اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے، ہاں جن باتوں پر تم سے صبر نہ ہو سکا ان کی حقیقت تم کو بتلا دوں۔‘‘
(سورہ کہف: ۷۸۔۷۹)
۱۔ سب سے پہلے کشتی کا معاملہ پیش آیا وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے، وہ جہاں جا رہے تھے، وہاں کا بادشاہ ظالم تھا، کسی اچھی کشتی کو دیکھتا تو چھین لیتا تھا میں نے کشتی میں عیب کر دیا تا کہ وہ کشتی پر قبضہ نہ کرے۔
۲۔ لڑکے کے ماں باپ مومن تھے میں نے دیکھا کہ جوان ہو کر ان کا بیٹا سرکشی اور کفر کر کے اپنے ماں باپ کو اذیت پہنچائے گا اس لئے میں نے اس کو قتل کر دیا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کے والدین کو دین دار، پرہیز گار اور محبت کرنے والا بیٹا عنایت فرمائے۔
۳۔ اور دیوار کا معاملہ ہے کہ یہ گھر یتیم لڑکوں کا تھا، دیوار کے نیچے ان کے لئے خزانہ دفن تھا، تمہارے رب نے چاہا کہ دونوں لڑکے جوان ہو کر اپنا محفوظ خزانہ نکال لیں، یہ ان لڑکوں کے حال پر پروردگار کی ایک مہربانی تھی جو اس طرح عمل میں آئی۔ یاد رکھو میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 261 تا 263
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔