سرکشی اور عذاب
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19595
فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی عذابوں میں مبتلا کیا۔ فرعون کی سرکشی پر حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت ہارونؑ کو اپنا عصا دیتے ہوئے اسے دریائے نیل پر مارنے کی ہدایت کی۔ دریا کا تمام پانی خون بن گیا۔ اس طرح ایک مرتبہ حضرت ہارونؑ نے عصا زمین پر مارا تو سارے ملک میں مینڈکوں کی بارش ہونے لگی۔ مینڈکوں کی اتنی تعداد ہو گئی کہ لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی۔ لیکن ہر بار لوگ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ کے پاس آتے، معافیاں طلب کرتے اور ہر بار حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ انہیں معاف کر دیتے۔ لیکن قوم پھر نافرمانیوں میں مبتلا ہو جاتی تھی۔
حضرت موسیٰ ؑ نے حکم الٰہی کے تحت اپنی قوم کو اللہ کا فیصلہ سنایا اور ہجرت کا حکم دیا۔
بنی اسرائیل جس دن مصر چھوڑ کر جا رہے تھے اس دن شہر میں ایک وباء پھوٹ پڑی جس سے قبطیوں (مصریوں) کی تمام پہلوٹی کی اولادیں ہلاک ہو گئیں۔ وہ لوگ پریشانی میں اس قدر مبتلا ہو گئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے جانے کی خبر اس وقت ہوئی جب وہ اس علاقے سے جا چکے تھے۔
بنی اسرائیل کا قافلہ حضرت ہارونؑ کی قیادت میں مصر سے روانہ ہوا۔ حضرت موسیٰ ؑ قافلے کے گزرنے کے بعد مصر سے روانہ ہوئے۔
دوسرے روز فرعون اپنے لشکر کے ہمراہ قافلے کے تعاقب میں نکلا اور بحر قلزم کے ساحل پر فرعون کا لشکر قافلے کے قریب پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا سمندر میں مارا۔ سمندر میں صاف اور خشک راستے بن گئے۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ کی قیادت میں اس راستے سے گزر گئے۔ فرعون بھی اپنے لشکر کے ہمراہ جب اس راستے سے گزرنے لگا تو بیچ سمندر میں دونوں کنارے آپس میں مل گئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔
فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کا یہ قافلہ حارہ، ایلیم اور رفیڈیم کے اطراف سے کوہ سینا کی طرف جانے لگا۔ ایک مقام پر انہیں مشرک اور بت پرست لوگ ملے۔ بنی اسرائیل نے جب انہیں باطل خدا کی پرستش کرتے دیکھا تو ان کے اندر کا ’’بت‘‘ دوبارہ زندہ ہو گیا۔ لیکن حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ ایک مرتبہ پھر قوم کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا!
’’تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔ یہ لوگ جس طریقے کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں۔ وہ سراسر باطل ہے۔ کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لئے تلاش کروں؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت دی۔‘‘
حضرت موسیٰ ؑ جب مشاہدہ تجلی ذات کے لئے کوہ طور پر گئے تو آپ نے حضرت ہارونؑ کو اپنا قائم مقام اور نائب مقرر فرمایا۔ حضرت ہارونؑ بنی اسرائیل کے تمام انتظامی امور سر انجام دیتے تبلیغ اور رشد و ہدایت کی ذمہ داریاں پوری فرماتے۔
موسیٰ نے چلتے وقت اپنے بھائی ہارون سے کہا! ’’میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ ۱۴۲)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 283 تا 285
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔