ستائیس جنوری
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6200
آؤ یارو ۔۔۔ دلدار کی باتیں کریں۔۔۔؟
جنوری کا مہینہ پہلے بھی تمام تر رعنائیوں، مسرتوں۔ خوشیوں، رنج و الم، داغ مفارقت، رُوح کی بے تابی کے ساتھ آتا رہا ہے۔ اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
کائنات ایک ایسی حرکت ہے جو ایک لمحے کے لیئے بھی رک جائے تو یہ رنگ رنگ خوشبو فضائے بسیط میں تحلیل ہو جائے گی ۔ جنوری کے آخری عشرے میں کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم ناک نہ ہوئی ہو، کوئی دل ایسا نہ تھآجس کی حرکت عارضی طور پر نہ رک گئی ہو۔ آب و گِل کی دنیا سکتہ کے عالم میں تھی اور عالم بالا میں جشن کا سماں تھا۔ ۲۷ جنوری ۱۹۷۹ کی رات جب کہ دن رات کے کنارے ایک دوسرے سے آ ملنے کے لیئے بے قرار تھے ،قلندر بابا اولیاءؒ کو خالق حقیقی نے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔
نورانی لوگوں کی باتیں بھی روشن اور منور ہوتی ہیں۔ زندگی میں ان کے ساتھ ایک لمحے کا تقرب سو سالہ طاعتِ بے ریا سے افضل ہے اور عالمِ قدس میں چلے جانے کے بعد ان کی یاد ہزار سالہ طاعتِ بے ریا سے افضل و اعلیٰ ہے کہ ایسے مقرب بارگاہ بندووں کے تذکرے سے آدمی کا انگ انگ اللہ تعا لیٰ کی قربت کے تصورسے رنگین ہو جاتا ہے۔
لازوال ہستی اپنی قدرت کا فیضان جاری و ساری رکھنے کے لیئے ایسے بندے تخلیق کرتی رہتی ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے ہیں، خالقِ حقیقی سے تعلق قائم کرنا اور آدم زاد کو اس سے متعارف کرانا اُن کا مشن ہوتا ہے۔
آئیے! آج کی نشست میں دلدا ر، دل نواز کی باتیں کریں۔ ۔۔۔۔ اس لیئے کہ انسان دوستی کا تقاضا ہے کہ انسانیت نواز دوست کی آواز کی لہریں” آوازِ دوست” کی صفحے پر بکھیر دی جا ئیں، اس طرح کہ ایک مرقع تصویر سامنے آجائے۔
فرمایا قلندر بابا اولیاءؒ نے:
“نوع انسان میں مرد ،عورتیں، بچّے ،بوڑھے سب آپس میں آدم کے نطے خا لق کائنات کے لیقی ک رواز و نیاز ہیں، آپس میں بھائی بہن ہیں۔۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ بڑائی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اپنے اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے، اللہ کی صفات کے سمندر کا عرفان رکھتا ہو، جس کے اندر اللہ کے اوصاف کا عکس نمایاں ہو، جو اللہ کی مخلوق کے کام آئے، کسی کو اس کی ذات سے تکلیف نہ پہنچے”
نیکی کی تبلیغ کرنے والا خود نیک ہوتا ہے۔ باکل اسی طرح بدکردار آدمی دل کا خود برا ہوتا ہے تب اس سے بدی اور دوسروں کی بربادی کے کام رونما ہوتے ہیں۔ غصّہ کی آگ پہلے غصّہ کرنے والے کے خون میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اس کے اعصاب متاثر ہو کر اپنی انرجی (ENERGY) ضائع کردیتے ہیں دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے لیئے کسی قسم کے بھی نقصان کوپسند نہیں فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“جو لوگ غصے پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں، اللہ ایسے احسان کرنے والے بندووں سے محبت کرتا ہے۔”
شمع پہلے خود جلتی ہے اور جب وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ آگ کی نظر کر کے خود کو فنا کر دیتی ہے تو شمع کے اس ایثار پر پروانے جاں نثار ہو جاتے ہیں۔
جو خود عارف نہیں ہے وہ کسی کو عارف کیسے بنا سکتا ہے۔ جوخود قلاش اورمفلوک الحال ہے وہ کسی کو کیا خیرات دے گا!
یہ کیسا المناک اور خوفناک عمل ہے کہ ہم دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش ہوتے ہیں جب کہ آدم و حوا کے رشتے کے پیش نظر ہم خود اپنی جڑ کا ٹتے ہیں۔ درخت ایک ہے، شاخیں اور پتے لا تعداد ہیں۔ اگر کوئی شاخ خود اپنے درخت کی جڑ پر ضرب لگائے تو یہ کیسی نادانی کی بات ہے کہ وہ خود کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے۔ خوشی ہمارے لیئے معراج تمنا ہے تو ہم اپنے ہم جنسوں کو تکلیف پہنچا کر کیسے خوش رہ سکتے ہیں!
ہر انسان دوسرے انسان سے ہم رشتہ ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان سے اس لیئے متعارف ہے کہ اس کے اندر زندگی بننے والی لہریں ایک دوسرے میں رد و بدل ہو رہی ہیں۔ پر مسرت محفل میں جہاں سینکڑوں ہزاروں افراد آلام سے بے نیاز خوشیوں کے لطیف جذبات سے سر ش ر ہیں، وہاںایک ف رد کی المناکی ساری محفل کومغموم کر دیتی ہے۔ ۔۔آخر ایسا کیوں ہے ؟
اس لیئے کہ پوری نوع کے افراد زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہیں۔ایک کڑی کمزور ہو جائے تو زنجیر میں جب تک دوسری کڑی ہم رشتہ نہ ہو جائے زنجیر نہیں کہلائے گی۔ قرآن کاارشاد ہے:
“متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سسے پکڑ لو اور آپس میں تفر قہ نہ ڈالو۔”
اتحاد و یگانگت ماضی کو پر وقار، حال کو مسروُر اور مستقبل کو روشن اور تابناک بناتی ہے۔
مصورایک تصویر بناتا ہے۔ پہلے وہ خود اس تصویر کے نقش و نگار سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ مصور اگر خود اپنی بنائی ہوئی تصویر سے مطمئن نہ ہو تو دوسرے کیوں کر متا ثر ہو نگے۔ نہ صرف یہ کہ دوسرے لوگ متاثر نہیں ہوں گے بلکہ تصویر کے خدوخال مذاق کا ہدف بن جائیں گے اور اس طرح خود مصور بے چینی، اضطراب و اضمحلال کے عالم میں چلآجائے گا۔ ایسے کام کریں کہ آپ خود مطمئن ہوں، آپ کا ضمیر مردہ نہ ہو جائے۔ اور یہی وہ راز ہے جس کے ذریعے آپ کی ذات دوسروں کے لیئے راہ نمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ہر شخص کو چاہئے کہ کاروبار حیات میں پوری پوری جدوجہد اور کوشش کرے لیکن نتیجہ پر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے اس لیئے کہ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات جس طرح چابی بھر دیتے ہیں، آدمی اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
بے شک اللہ قادر مطلق اور ہر چیز پر محیط ہے۔ حالات پر اس کی گرفت ہے۔ وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے حالات میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔
تمہیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلا توقف معاف کردو، اس لیئے کہ انتقام بجائے خود ایک صعوبت ہے۔ انتقام کآجزبہ اعصاب کو مضمحل کر دیتا ہے۔
تم اگر کسی کی دل آزاری کا سب بن جاؤ تو اس سے معافی مانگ لو، قطع نظر اس کے کہ وہ تم سے چھوٹا ہے یا بڑا اس لیئے کہ جھکنے میں عظمت پوشیدہ ہے۔ قرآن پاک کی روشنی میں:
“آدمی نا قابل تذکرہ شے تھا۔ اس کے اندر اللہ نے اپنی رُوح پھونک دی پس وہ دیکھتا، سنتا اورمحسوس کرتا انسان بن گیا۔”
رُوح کیا ہے؟ رُوح امرِ رَب ہے۔ امرِ رَب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے “’ہو” اور وہ ہو جاتی ہے۔
جس فرد کے دل میں شک جاگزیں ہو، وہ عارف کبھی نہیں ہو سکتا، اس لیئے کہ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کےذریعے وہ آدم زاد کو اپنی رُوح سے دور کر دیتا ہے۔ رُوحانی قدروں سے دوری آدمی کے اوپر علم و آگاہی اور عرفان کے دروازے بند کر دیتی ہے۔
اللہ والوں کے اوپر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے تجلیات کی بارش ہوتی ہے۔ ان کے فیوض و برکات کی روشن اور منور چادر ایک عالم پر سایہ فگن رہتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 44 تا 48
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔