زمین کی روحانی حیثیت

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17765

زمین کے سلسلے میں عجیب و غریب انکشاف ہوئے مثلًا یہ کہ :-

زمین کے اوپر پہاڑ ایک دائرہ یا گول کڑے کی مانند رکھا ہوا ہے۔ کہیں وہ باہر ہوگیا ہے اور کہیں زمین کے اندر جہاں باہر نظر آتا ہے وہ سب پہاڑی علاقہ ہے اور جہاں پہاڑ زمین کے اندر ہے وہ سب سمندر ہے۔ پہاڑ کے چھلّے یا کڑے کے درمیان جو جگہ ہے اس کو ہم خشکی یا زمین کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

ایسا ہوتا رہتا ہے کہ پانی اپنی جگہ بدل کر خشکی کی جگہ بدل کر خشکی کی جگہ آجاتا ہے۔ ایسی صورت حال واقع ہونے کے بعد پہاڑ کے چھلّےکا درمیانی حصّہ خشکی یا زمین سمندر بن جاتی ہے اور سمندر زمین کہلانے لگتا ہے۔ یہ بھی القا ہوا کہ اس طرح کا عمل ہر دس ہزار سال کے بعد ہوتا ہے۔ ہم اس کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ اب سے دس ہزار سال پہلے ہمالیہ اور ایورسٹ سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اب پھر دس ہزار سال پورے ہونے کے بعد پہاڑ کی یہ بلند و بالا چوٹیاں تہِ آب         آ جائیں گی اور موجودہ دنیا  سب کی سب سمندر بن جائے گی۔ اور سمندر کی جگہ نئی دنیا آباد ہوگئی۔ ۲۰۰۶ء کے بعد ہماری زمین دس ہزار سال پورے کرے گی اور جب ایسا ہو گا تو دنیا کی آبادی چار ارب سے گھٹ کر ایک ارب رہ جائے گی اور جو لوگ بچ جائیں گے وہ گھروں اور شاندار محلات میں رہنے کی بجائے درختوں پر بسیرا کریں گے، جنگلوں اور غاروں کے نذر سکونت پذ یر ہوں گے۔

مغرب کے بعد دیکھا کہ میرے اندر ناف کے نیچے دو لطیفے غدود کی صورت میں ہیں۔ اور وہ کہکشانی لہروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان لہروں میں زرد رنگ غالب نظر آتا ہے۔ میں نے اپنے ارادے سے زرد رنگ کی جگہ نیلا کر دیا۔ اور پھر ان غدود کو وہاں سے ہٹا کرنئے  غدود لگا دیئے۔ یہ وہ غدود ہیں جن کا تعلق خون کو گرم یا ٹھنڈا رکھنے سے ہے۔ خون میں دو قسم کی لہریں ہوتی ہیں۔ ٹھنڈی اور گرم۔ ٹھنڈی لہروں سے حواس بنتے ہیں اور گرم لہروں سے حواس میں تعطّل پیدا ہوتا ہے۔ دماغی امراض مثلاَ بے ہوشی، پاگل پن، جنون وغیرہ سب گرم لہروں کی مقداروں میں زیادتی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مرگی کا دورہ بھی گرم لہروں کی پیداوار ہے۔ کینسر بھی ان ہی گرم لہروں سے ہوتا ہے۔ ان کا رنگ زیادہ تر سرخ ہوتا ہے۔

آج پوری رات اور تمام دن میرا ذہن حقیقت محمّدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب رہا۔ حضور قلندر بابا اولیاء رح ، حضرت اویس قرنی رض حقیقت محمدّیہ ﷺ میں ایک ساتھ قیام پذیر رہے۔ سیّدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے اپنے سینہ مقدّس و مطہّر سے لگایا اور بہت دیر  تک اپنے سینہ مبارک سے لگائے رہے۔ اس کے بعد میرے اوپر یہ کیفیت طاری ہوئی کہ غیب سامنے آ گیا اور پھر اپنے ” فواد” کو دیکھا۔ فواد کے اوپر  پیاز  کے چھلکوں کی طرح چوبیس پرت ہیں۔ یعنی فواد ان چوبیس پرت کے اندر  ایک روشن نقطہ یا مرکزہ ہے۔

ذہن میں یہ بات آئی کہ چوبیس پرت  اُتار دینے چاہئیں۔ انگشت شہادت سے پہلے  چودہ   پرت کو شگاف دیا۔ پھر آہستہ آہستہ، بہت آہستہ فواد کے اوپر سے یہ پرت الگ کر دئیے اور دوسری مرتبہ اسی طرح مزید دس پرت اُتار دئیے۔ دس اور چودہ پرت جب فواد کے اوپر سے اتر گئے تو زماں اور مکاں کی نفی ہو گئی اور نظر نے عرش کا مشاہدہ کیا۔ پھر خود کو کائنات میں دیکھا۔

میرے سامنے ایک عورت پیش کی گئی۔ میں نے یہ کہ کر اس عورت کو قبول نہیں کیا کہ جنس ہے۔ پھر ایک اور عورت پیش کی گئی ۔ اس کو یہ کہ کر رد کر دیا کہ یہ الجھن اور پریشانی ہے۔  تیسری عورت کہاں چلی گئی یہ بات یا تو دیکھی نہیں یا پھر حافظہ میں نہیں رہی۔ البتہ جب چوتھی عورت سامنے آئی تو میں نے یہ کہا کہ “یہ عقل ہے اور میں اسے  ہر گز قبول نہیں کرونگا۔”

اللہ تعالٰی کے حضور نہایت عاجزی اور انکساری سے دعا کی ” الہی مجھ پر رحم نازل فرما” مجھے کچھ نہیں چاہئیے۔ میں تو صرف آپ کو چاہتا ہوں۔ میرے اللہ ؛   میری التجا اپنے رحم و کرم سے قبول فرما لیجئیے؛”

جمعہ کے روز عصر کے بعد مراقبہ میں دیکھا کہ حضرت قبلہ بابا تاج الدین ناگپوری رح تشریف لائے۔ میں نے ان سے بہت دیر تک باتیں کیں۔ مراقبہ کے بعد ڈائری لکھتے وقت مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات یاد نہیں رہی۔ صرف ایک بات یاد ہے ۔ وہ یہ کہ میں نے حضور بابا رح سے عرض کیا ۔” حضور؛ مجھے اپنی نسبت عطا ءفرما دیجئیے۔”

دیکھا کہ بابا رحمتہ اللہ علیہ نے میرے سر کی طرف اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا میرا سر بیچ میں سے کھل گیا۔ اب بابا حضور رح اٹھے اور میرے سر کے کھلے ہوئے حصّے میں پیر رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ اور آہستہ آہستہ انھوں نے میرے اندر اترنا  شروع کر  دیا اور ان کا پورا جسم میرے جسم میں اس طرح  تحلیل ہو گیا کہ ہاتھ میں ہاتھ ٹانگ میں ٹانگ،سر میں سر، آنکھوں  میں آنکھیں اور میرے کانوں میں بابا کے کان آگئے۔ زہن میں یہ بات آئی کہ بابا تاج الدین رح کی نسبت مجھے منتقل ہو گئی ہیں۔

خواب میں دیکھا کہ ایک کوٹھری ہے جو بہت ہی سرسبزو شاداب پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ میں وہاں موجود ہوں۔ وہاں کچھ لوگ اور بھی بیٹھے ہیں۔ میں نےاس کوٹھری کی کھڑکی میں سے دیکھا سامنے آسمان پر دو ہلال نکلے ہوئے ہیں۔ ایک چاند روشن ہے اور دوسرا قدرے کم روشن ہے۔ میں نے تعّجب کے ساتھ ان دونوں ہلالوں کو دیکھا کہ اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دکھایا۔ اور تشوش کا اظہار کیا۔ اور کہا ” کتنی حیرت ناک بات ہے کہ ایک ساتھ دو چاند نکلے ہوئے ہیں”

لوگ یہ صورت حال دیکھ کر پریشان ہوگئے اور ان سب نے بھی بہت زیادہ حیرت کا اظہار کیا۔ ان کی یہ تشویش دیکھ کر میں خوف زدہ ہو گیا۔ میں نے دعائیہ انداز میں کہا” اللہ تعالےٰ اپنا  فضل فرمائیں؛ کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے اور مجھے  ایسے وقت اپنے بیوی بچوں کے پاس ہونا چاہیئے”  پھر خیال آیا اس وقت میں گھر سے بہت دور ہوں۔ ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ خواب میں زمانیت اور مکانیت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ میں یہاں سے اُڑ کر اپنے گھر چلا جاؤں گا۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فضا پر غبار چھا گیا اور طوفانی ہوا چلنے لگی۔ یہ خطر ناک حالت دیکھ کر میں نے خواب ہی میں مراقبہ کیا اور مراقبہ میں  اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا۔ قدم بوسی کے بعد عرض کیا ۔ ” حضور یہ کیا ہو رہا ہو رہا ہے؟”  ایک ساتھ دو چاند نکلے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے طوفان آ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی زبردست مصیبت آنے والی ہے۔”

میرے آقا نے فرمایا۔” حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔  اللہ تعالےٰ کے کارندے برابر کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ حالات سدھر جائیں  مگر حالات ہیں کہ روز بروز خراب ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب جسم کو کوئی حصّہ سڑ جاتا ہے تو اس کا کاٹنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ  جسم کے  دوسرے حصّے زہر آلود ہونے سے بچے رہیں۔ سیّدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام بھی ناخوش ہیں۔ تمام اصحابِ تکوین اور فرشتے لرزہ براندام ہیں کہ دیکھئے سرکار عالی، حاصلِ کائنات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کیا احکامات صادر فرماتے ہیں۔ کسی اللہ کے بندے میں اتنی جرات  نہیں  ہے کہ آگے بڑھ کر کچھ عرض کر سکے۔ تکوین کا ہر آدمی حضور علیہ الصلوۃ والسّلام کے حضور اپنے اپنے وقت پر سفارش کر چکا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک صاحب کی پیش کردہ تجویز کو بھی نا منظور نہیں فرمایا۔ اس کے باوجود ہماری کوششیں بارآور نہیں ہوئیں۔

اللہ تعالےٰ کے قانون کے مطابق لَا اِکراہَ فی الدِّین ﯀ کے اندر رہتے ہوئے لاکھوں طریقوں سے انسپائر   (INSPIRE)کیا گیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ دولت پرستی، جاہ طلبی اور حُبِ دنیا لوگوں کا شعار بن گیا ہے۔ ہر شخص جانتے  بوجھتے تباہی اور بربادی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ غریب اس لئے بد دیانت ہے کہ اس کی معاش اس کے لئے تنگ کر دی گئی ہے۔ امیر اس لئے بد دیانت ہے کہ اس کی حرص کا پیٹ کسی طرح بھی بھرنےمیں نہیں آتا۔

لوگ دیانت داری، اعلیٰ نصب العین اور اصول پسندی جیسے جذبات سے عاری ہو چکے ہیں۔ رشوت، چور بازاری، اغوا، اسمگلنگ، ملاوٹ، جعل سازی، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ لوگوں کا معمول بن چکے ہیں۔ غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظامِ معیشت کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ مرض میں روز افزوں ترقی ہے اور علاج کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ جو لوگ علاج کر سکتے ہیں وہ خود اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔” معیار زندگی” کے خوبصورت اور پُر فریب نام سے ہر شخص  ایک دوسرے کو فریب دے رہا ہے۔ عاّمتہُ الناس کی تنخواہ کا تناسب شرمناک حد تک غیر منصفانہ ہے۔ ایک سرمایہ دار ماہانہ جتنی رقم کی سگریٹوں کا دھواں اڑا دیتا ہے اتنی ہی رقم ایک آدمی کو تنخواہ دی جاتی ہے جو مکان کا کرایہ، بچوں کی تعلیم، ریل اور بسوں کے کرائے کے لئے۔ صاف ستھری غذا کے لئے، لباس اور دوسری بنیادی ضرورتوں کے لئے کافی نہیں ہے۔ جب مزدور اپنے آقاؤں کا رویّہ دیکھتے ہیں اور ان کی شاہانہ زندگی سامنے آتی ہے تو یہ بھی ان ہی طرزوں میں سوچنے لگتے ہیں جن طرزوں کو دولت پرست اپنائے ہوئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک طبقہ کے پاس وسائل ہیں اور دوسرے طبقہ مزدور کے پاس صرف طرزِفکر ہے۔ ان حالات میں قوموں کا استحکام متزلزل ہو جاتا ہے۔ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل کا سورج کس طرح طلوع ہو گا۔

اللہ تعالےٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

” اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے دردناک عذاب کی بشارت ہے”۔

میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا” حضور، کوئی صورت ایسی بھی ہے کہ مصیبت کے یہ بادل چھٹ جائیں اور ہم محفوظ و مامون زندگی گزاریں”

فرمایا:

“بظاہر ہر تدبیر ناکام ہو چکی ہے۔ فرشتے بھی ناخوش ہیں کہ ہم جتنی زیادہ اچھائیوں کی ترغیب دیتے ہیں، آدمی اس سے کہیں زیادہ خدائی قانون کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہے۔ اور جب کوئی قوم خدائی قانون کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرتی ہے تو قدرت ایسی قوموں کو برداشت نہیں کرتی۔ ایسی قومیں مٹ جاتی ہیں۔ محکوم بن جاتی ہیں اور ان کے شب و روز پر ادبار برسنے لگتا ہے۔ وہ عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہو کر ذہنی سکون سے محروم ہو جاتی ہیں۔ خوف اور حزن ان کےاوپر  مسلّط ہو جاتا ہے”۔

آنکھ کھلی تو دل کی حرکت تیز تھی۔ اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 81

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)