روشنیوں کا اسراف
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6209
یہ بات کون نہیں جانتا کہ کائنات میں موجود ہر شئے پیدا ہوتی ہے، نشو نما پاتی ہے، اپنے عروج کو پہنچتی ہے اور پھر اس شئے کے انحطاط کا دور آتا ہے اور بتدریج تیزی کے ساتھ یا کچھ زیادہ وقفہ کے بعد وہ شے انجام کارِ فنا ہو جاتی ہے۔ بالکل یہی صورتِ حال آدمی کی بھی ہے۔ آدمی پیدا ہوتا ہے، معصومیت کے دَور سے گزر کر شعور کی دنیا میں قدم بڑھاتا ہے۔ اور شعوری زندگی کو معراج سمجھنے والا ذی ہوش، عاقل و بالغ، انسان گھٹنا شروع ہوتا ہے۔ اور ایک ایسا دور آتا ہے کہ اعصاب انسانی عمارت کا بوجھ اٹھانے کا خود کو اہل نہیں سمجھتے اور جب انسانی عمارت اینٹ پتھر (ہڈیوں کا پنجر) چو نا اور گارا (اعصاب و عضلات)، پلاسٹر (گوشت پوست ) اور رنگ و روپ (کھال) اپنی طاقت کھو بیٹھتے ہیں تو یہ عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے۔
حرکت کے قانون کے مشاہدے سے یہ کلیہ سامنے آتا ہے کہ ہر حرکت کرنے والی چیز میں کوئی چیز ذخیرہ ہوتی ہے اور یہ ذخیرہ جب اس کے اندر جلتا ہے تو یہ چیز حرکت کرتی ہے۔ موٹر کار یا ہوائی جہاز میں پٹرول جلتا ہے، لالٹین میں کیروسن آئل جلتا ہے، تیز روشن بلب میں بجلی جلتی ہے اور آدمی کے اندر انرجی کیلوریز (CALLORIES) بن کر خرچ ہوتی ہیں۔ جتنی زیادہ کیلوریز ذخیرہ ہوتی ہیں، آدمی اسی منا سبت سے زیادہ طا قتور، زیادہ فعال اور زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ کیلوریز میں جس مناسبت سے کمی واقع ہوتی ہے اسی مناسبت سے انسانی صحت متاثر ہوتی رہتی ہے۔ جس طرح ایک گاڑی پٹرول کی ترسیل نہ ہو نے سے جھٹکے کھا نے لگتی ہے، آدمی بھی اسی طرح گرتا اور اٹھتا رہتا ہے۔ یہ گرنا اور اٹھنا اس کی اعلیٰ یا اسفل صحت کی نشاندہی کر تا ہے۔
اللہ تعالےٰ کے فرمان کے بموجب آدمی کو سڑے ہوئے گارے اور کھنکھناتی مٹی سے بنایا گیا ہے۔اس نا قابل تذکرہ شے میں اللہ نے اپنی رُوح ڈال دی اور یہ ایک ایسا کھلونا بن گیا کہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے، چکھتا بھی ہے اور محسوس بھی کر تا ہے۔ آدمی کا چلنا پھرنا ، سونآجاگنا، کھا نا پینا، اختیار استعمال کرنا یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ اس کے اندر روشنیاں ذخیرہ کر دی گئی ہیں۔ روشنیوں کا اسراف بے جا اسے جلدی نڈھال کر دیتا ہے اار روشنیوں کا وافر ذخیرہ اسے زیادہ دیر تک صحت مند اور فعال رکھتا ہے۔ کوئی آدمی جتنا زیادہ دُنیاوی معاملات میں مصروف رہتا ہے اتنا ہی اس کے اندر سکون اور اطمینان قلب کم ہوتا ہے۔
دنیاوی آسائش و آرام کی حیثیت اپنی جگہ اہم سہی لیکن قانون قدرت یہ ہے کہ جب انسان کسی ایک چیز کی طر ف متوجہ ہوتا ہے تو وہ چیز انسانی دماغ کے سکرین پر نمودار ہو کر ڈسپلے (DISPLAY) ہوتی ہے اور اس ڈسپلے میں وہ روشنیاں خرچ ہوتی ہیں جو ذخیرہ ہیں اور ذخیرے کو انسانی دماغ کے دو کھرب خلیات جنریٹ (GENERATE) کر رہے ہیں۔
اگر ایک گھر کے چار کمروں میں سے ایک کمرے کے اندر دس چیزیں ہیں مثلاً صوفہ سیٹ، ریڈیو، ٹی وی، میز اور دوسرے سامان تزئین و آرائش۔ اور دوسرے کمرے میں صرف ایک بیڈ ہے تو کمرے کی دس چیزوں پر جب ہماری نظر جاتی ہے تو ہمارے اندر سے ذخیرہ شدہ روشنیاں ان دس چیزوں کو دماغی اسکرین پر ڈسپلے کرتی ہیں یعنی جو روشنی ایک چیز کے لیئے خرچ ہونی چاہئے تھی اس کا خرچ دس گنا بڑھ جا تا ہے۔
عام مشاہدہ یہ ہے کہ سیدھے سادے آدمی کی صحت زیادہ اچھی اور عمر طویل ہوتی ہے۔ جب کہ دنیاوی جھمیلوں میں “بند ذہن” آدمی کی صحت کمزور ہوتی ہے اور اس کی عمر بھی کم ہوتی ہے۔ بات یہی ہے کہ ایک آدمی کے اندر ذخیرہ شدہ خرچ زیادہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ زیادہ خرچ کرنے والا آدمی قلاش ہو جاتا ہے۔
رُوحانی نقطہ نظر سے جب کوئی بچہ بطن مادر سے زمین کی بساط پر آتا ہے تو اس کے اندر پانچ ہزار سال کی عمر گزارنے کے لیئے روشنیوں کا ذخیرہ ہوتا ہے جس کو وہ اپنی نادانی، جھوٹے وقار اور خود نمائی کے اعمال سے اتنا زیادہ خرچ کر دیتا ہے کہ پانچ ہزار سال کی عمر پچاس یا ساٹھ سال کی عمر بن جاتی ہے۔ یعنی پانچ ہزار سال زندہ رہنے والا آدمی اپنی عمر کا اسراف بے جا کر کے پچاس یا ساٹھ سال میں اُسے ختم کر دیتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ مطمئن اور پر سکون آدمی کی صحت اچھی رہتی ہے، اسے بھوک خوب لگتی ہے، نیند کی میٹھی آغوش اس کی منتظررہتی ہے اور وہ زیادہ دیر تک زندہ رہتا ہے۔ انتشار اور ذہنی خلفشار میں مبتلا آدمی کے اندر ضرورت سے بہت زیادہ کیلوریز خرچ ہوتی ہیں۔ پیٹ کی آگ اس کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے مگر اس کو بھڑکا نے کے لیئے اور پھر بجھانے کے لیئے دواؤں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سونا تو وہ چاہتا ہے کہ نیند اعصابی توانائی کے لیئے بہترین ٹانک (TONIC) ہے لیکن نیند اسے نہیں آتی۔ ہر ذی رُوح کی طرح اس کے اندر سے بھی خوشی اُبلنا چاہتی ہے مگر غم و آلام اور کثرت سُودوزیاں کے تاثرات یہ خوشی باہر نہیں آنے دیتے اور پھر وہ ایک چہرے پر ملمع شدہ کئی چہرے سجا کر اپنے اندر کا کرب چھپاتا ہے۔ اس کرب میں کیلوریز کا خرچ اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ صد حسرت و یاس “خَسَرَالدُّنیاوَالاٰخِرۃ” کے مصداق اُس عالم کو بے مراد سدھار جاتا ہے جہاں کاروبار ہے، نہ فیکٹریاں ہیں نہ عالیشان محلات ۔۔۔۔۔۔۔ البتہ اس کے مقدّر کا سارا سرمایہ ۲ فٹ ۳ فٹ کا ایک بے آب و گیاہ گڑھا بن جا تا ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ اس دنیا پرست آدمی کے جسم کے ذرّات کو چرند پرند اور عام لوگ پیروں میں روندتے ہوئے گزر جا تے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 78 تا 81
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔