دولت کے پجاری
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19262
جو قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے اور اللہ کی پرستش کے بجائے دولت کی پرستش میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ ایسی قوم کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ روئے زمین پر اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ بڑی بڑی سلطنتوں کے بادشاہ محلات کے مکین اور ان کے عالیشان محلات آج کھنڈرات کی شکل میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ شہنشاہ ایران جس کے خاندان نے ڈھائی ہزار برس حکومت کی ہے بے یار و مددگار مر گیا۔ اور اسے اپنے ملک میں قبر کے لئے دو گز زمین بھی نصیب نہیں ہوئی۔
’’کیا یہ لوگ زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھتے کہ پہلی اقوام کا انجام کیا ہوا۔ وہ لوگ قوت اور تہذیب و تمدن میں ان سے برتر تھے لیکن اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیا اور انہیں کوئی نہیں بچا سکا۔‘‘
(سورۃ المومن۔ ۲۱)
جب تک اللہ کے بتائے ہوئے نظام میں خلل واقع نہ ہو، اللہ کا قانون لغزشوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے لیکن جب افراد کے غلط طرز عمل سے اللہ کے تخلیقی سسٹم میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے تو قاہرانہ نظام متحرک ہو جاتا ہے اور قوم درد ناک عذاب میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اللہ کا قانون ایسے افراد سے اقتدار چھین لیتا ہے اور قوم غلام بن جاتی ہے اس لئے کہ قوم نے خود دولت کا غلام بن کر اپنے لئے عارضی اور مٹ جانے والی چیز کی غلامی پسند کر لی تھی۔ مال و دولت انسان کی بڑی کمزوری ہے۔
’’بے شک انسان مال و دولت کی محبت میں بڑا شدید ہے۔‘‘
(سورۃ العٰدیٰت۔ ۸)
انسان سمجھتا ہے کہ زر و جواہرات اس کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ وہ دولت کے انبار جمع کرتا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ قدرت نے اسے توانائیوں کا جو بیش بہا خزانہ عطا کیا ہے وہ اسے ہوس زر میں ختم کر دیتا ہے۔
انسان کہتا ہے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے۔ یہی وہ طرز فکر ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت بن جاتی ہے تو اللہ سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی ذریت قارون کا فرد بن جاتا ہے۔
دنیا کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ کی مخلوق کے لئے مال و دولت کو کھلا رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاک اور حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔
’’تم نیکی اور اچھائی کو نہیں پا سکتے جب تک وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو جو تمہیں عزیز ہے۔‘‘
’’اے نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ کہہ دو اپنی ضرورت سے زائد۔‘‘
ان احکام خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کیجئے۔ یہ کام اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور پھر اس میں دوسرے ضرورتمندوں کو بھی شامل کر لیجئے۔
یاد رکھیئے! جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو۔ اس میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ ہو۔
ضرورتمندوں کی امداد چھپا کر کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو اور ان کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔ کسی کو کچھ دے کر احسان نہیں جتلائیں اور نہ نمود و نمائش کا اظہار کریں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 225 تا 226
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔