دولت کے پجاری
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6199
دوستو !
چودہ صدیا ں بھی بالآخر دم توڑ گئیں۔ جس طرح مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آیا، چودہ صدیوں کے پانچ لاکھ گیارہ ہزار دن اور راتیں بھی واپس نہیں آئیں گی۔ایک ہزار چار سو سال میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا اس کا محاسبہ ہمارے اوپر فرض ہے۔
روز افزوں سائنسی ترقی نے علمِ حصولی کو معراج بخشی ہے۔ یہ بات اب قرینِ قیاس نظر آتی ہے کہ انسان تسخیر کائنات کے اس دائرہ میں داخل ہوا چاہتا ہےجہاں مادہ (Matter) کی حیثیت نفی بن جاتی ہے۔ یہ بات مشاہدہ بن گئی ہے کہ آدمی روشنیوں کے بے شمار لباسوں سے مزین ایک پیکر ہے اور روشنی کے اس لباس پر ہی رنگ و بو کی یہ دنیا قائم ہے۔ ظاہر بیں نظروں سے دیکھآجائے توآج کا انسان اور چودہ سو سال پہلے کے انسان سے بہت ترقی یافتہ ہے، اتنا ترقی یافتہ کہ اس نے نہ صرف یہ کہ آواز کے قطر (Wave Length) معلوم کر لیئے ہیں، ان کو گھٹانے بڑھانے کا بھی ملکہ حاصل کر لیا ہے۔ایک ہزار چھ سو قطر سے اوپر کی آوازوں پر اس کی دسترس ہے۔ روشنیوں کے اس ہالے کو جو اصل انسان ہے لہروں میں منتشر کر کے ہزاروں میل کے فاصلے پر پورے خدوخال کے ساتھ پردہ سکرین پر منتقل کر دیتا ہے۔ اسپیس (SPACE) اتنی سمٹ گئی ہے کہ ایک انچ اسپیس (مائیکرو فلم) میں سینکڑوں صفات کی کتاب محفوظ کر لی جاتی ہے۔ ٹائم کا حاصل یہ ہے کہ ہزاروں میل کا سفرگھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔
لیکن جب ہم ان سب حیرت زدہ کرنے والی تحقیقات اور ترقی کے نتائج پر غور کرتے ہیں تو دل میں ایک ہوک اٹھتی ہے!
یارو ، یہ کیسی ترقی ہے! آج کا ہر چہرہ غم و باس کا عکس ہے۔ آرام وآسائش کے اتنے وسائل کے باوجود آدمی پریشان ہے۔ اس ترقی نے نوع انسانی کا سکون چھین لیا ہے۔ سکون کی تلاش میں سرگرداں نوع نئے نئے امراض کا شکار ہے۔ ہر طرف یہ شور و غوغا ہے کہ آدمی، آدمی کی زندگی میں زہر گھول رہا ہے۔ اسلاف کی غیر ترقی یافتہ ماضی کآجب ہم حال سے مقابلہ کرتے ہیں تو یہ جان کر شدید احساس کمتری ہوتا ہے کہ تحمل اور بردباری ان کا شیوہ تھا، افراط و تفریط کا بازار آج کی طرح گرم نہیں بلکہ باکل سرد تھا ۔ بلا شبہ ان کے پاس ٹی وی ، وی سی آر، فریج اور ترقی یافتہ دور کی دوسری چیزیں نہیں تھیں۔ اتنا بہتر لباس انہیں میسر نہیں تھآجو ہم پہنتے ہیں،ایسے عالی شان گھر نہیں تھے جس قسم کے محل نما مکانوں میں ہم رہتے ہیں لیکن اُن کی دنیا سکون آشنا تھی ،وہ صحت مند تھے، خوش رہتے تھے، میٹھی نیند سوتے تھے۔ ہر آدمی خود اپنا آئینہ ہے۔ اس آئینہ میں دوسرا رُخ یہ نظر آتا ہے کہ چند جینیس(GENIUS) آدمیوں نے ایک چھوٹے سے ایٹم کو اتنی زیادہ اہمیت دے دی کہ اس کی حیثیت لاکھوں انسانی جانوں سے زیادہ ہو گئی۔ ایسے ایسے سلنڈر انسانوں کے ہا تھ وجود میں آئے کہ بٹن دبا دینے سے پورے بھرے شہر آکسیجن کی تلاش میں راہیِ عدم ہو جاتے ہیں۔ سکون کی تلاش میں نیندیں غائب ہوئیں تو خواب آور دواؤں کی ایجاد نے خود فریبی میں مبتلا کر کے نیند کی آغوش میں پہنچانے کے بعد انسان کو حواس باختہ کر دیا ۔ ایٹمی پروسیس نے ایسی بیماریوں کو جنم دیا جو لاعلاج ہیں جن کا نام سن کر ہی آدمی دہشت سے مر جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
“اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھا ؤ۔”
“جہاں سے دل چاہے” اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جنت میں ٹائم اسپیس (TIME and SPACE) کی جکڑ بندیا ں نہیں ہوتیں۔ جنت میں آدم کے اندر ٹائم اسپیس سے آزاد ہونے کی وہی صلاحیت ہے جس سے سائنس نے اسپیس کو توڑ دیا ہے۔ یہ وہی صلاحیت ہے جس کے ذریعے خلاؤں اور آسمانوں پر کمند ڈال دی گئی۔ یہ وہی صلاحیت ہے جس نے فاصلے ختم کر دیئے ہیں۔
اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کا مقصد چوں کہ دوسرے انسانوں اپنی برتری ثابت کرنا تھا اس لیے ساری دنیا کے اوپر صعوبتیں، زحمتیں اور پریشانیاں مسلط ہو گئی ہیں۔ اس ترقی میں اگر صرف اتنی تبدیلی آجائے کہ یہ سب خالصتاً اللہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیئے ہوں تو اللہ تعالےٰ کے ارشاد کے مطابق یہ بات پُوری ہوجائے گی۔
’”جہاں سے چاہو خوش ہو کر کھا ؤ۔”
چودہ صدیوں میں ہم جنّت کی اس صلاحیت سے قریب ہوئے ہیں جو ہمیں ٹائم اسپیس سے آزاد کرتی ہے اور اُس صلاحیت سے دور ہوئے ہیں جو ہمیں اطمینان و سکون کی زندگی عطا کرتی ہے۔ خدا کرے پندرہویں صدی اس صلاحیت کے لیئے پیش رفت ثابت ہو جو ہمیں ہر آن اور ہر لمحہ مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرتی ہے اور ہم اس آیت مقدسہ کی زندہ تفسیر بن جائیں۔
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أنَتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلََ مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا (سورۂ بقرہ)
اے عز یزو۔۔۔۔۔۔۔!
جو کچھ دنیا میں موجود ہے تمہارے لیئے ہے۔ یہ سب رنگ و نور میں ڈھلی ہوئی مورتیاں ہمارے لیئے بنائی گئی ہیں۔ خدا کی ذات کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، مکان و دکان سے بے نیاز ہے۔ ان سب چیزوں کوہمارے تابع فرمان کر دیا گیا ہے تا کہ ہم اس ساز و سامان سے لطف اندوز و بہرہ ور ہوں۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دولت اور اس کے ثمر کے غلام بن کر رہ گئے ہیں، یہی وہ طرز فکر ہے جو چودہ سو سال میں ہم نے اپنے اوپر مسلط کر لی ہے۔
آئیے عہد کریں ۔۔۔ !
کہ پندرہویں صدی میں ہم دولت کے پجاری نہیں بنیں گے۔ دولت کو اپنے زیر دست غلام اور کنیز بنا کر رکھیں گے، ایسی کنیز جس کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ اس نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی اور جس کے اندر ذہنی مرکزیت انسان کے اوپر آلام و مصائب کا درد ناک عذاب ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 40 تا 43
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔