دوزخ کا مشاہدہ

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17709

میں نے اندر سے دروازے کی کنڈی لگا دی تاکہ اندر کوئی اور صاحب آکر حضور خواجہ غریب نواز رح کے آرام میں مخل نہ ہوں۔ میں نے جب آگے بڑھنا چاہا تو جوتے میرے پیروں سے چپک گئے۔ میں نے ہر چند کوشش کی کہ پیروں میں سےجوتے نکل جائیں لیکن پیر جوتوں سے آزاد نہیں ہوئے اور اسی کوشش میں دُہائی دی۔ حضور خواجہ غریب نواز رح متوجہ ہوئے اور میرے پیر خود بخود جوتوں سے آزاد ہو گئے۔ اور دیکھا کہ حضور خواجہ غریب نواز رح کے پاس بیٹھا ہوا ہوں۔ حضور خواجہ غریب نواز رح نے تقریبا بیس منٹس تک گفتگو فرمائی۔ زبان مبارک سے جو الفاظ نکلتے تھے وہ میرے لئے مشاہدہ بن جاتے تھے۔
فرمایا انسان چھ شعور اور سات لاشعور سے مرکب ہے۔ سات لاشعور کا تذکرہ قرآن پاک میں سات آسمانوں سے کیا گیا ہے۔ ہر آسمان ایک بساط ہے اور اس میں فرشتے آباد ہیں۔ملائکہ عنصری ، ملائکہ کرّوبی، ملائکہ سماوی، حاملان عرش۔ یہ سب فرشتوں کے الگ الگ گروہ ہیں۔ جّنت کی دنیا سے متعلق فرشتوں کا ایک گروہ الگ ہے۔ دوزخ کا تذکرہ آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک لا متناہی وسیع و عریض جگہ ہے ۔ یہاں آگ ہے، کھولتے ہوئے پانی کے دریا ہیں۔ خون اور پیپ کے بڑے بڑے تالاب ہیں۔ زمانیاں فرشتے جو دوزخ کے انتظام پر معمور ہیں ۔ اس قدر ہیبت ناک ہیں کہ آدمی انہیں دیکھ کر سراپہ وحشت اور خوف بن جاتا ہے۔ حد نظر تک دہشت ناک خار دار زقوم کے درخت ہیں ، بڑے بڑے اژدھے منہ کھولے کسی کی آمد کے منتظر ہیں۔گھاس ہے لیکن جلی ہوئی اور خشک دوزخ کی زمین پر سنگلاف چٹانیں ہیں جہاں ڈھونڈنے سے بھی ہریالی نظر نہیں آتی۔ وہاں کی فضا غمگین، اداس اور نوح کناں ہے ۔ یخ اور ٹھنڈے پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔
یہاں کے ماحول کو کسی ایسی گیس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہےجو آدمی کے دل کی حرکت کے لئے ایک عذاب ہے ۔ دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ زمین پر نظر گئی تو تپتے ہوئے تانبے کی طرح محسوس ہوئی۔ ۔۔۔اتنی سخت اور گرم کہ تصور سے ہی جسم لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے الاؤ روشن ہیں کہ ان کے تصور سے ہی چربی پگلنے کی چراند آنے لگتی ہے۔ یکا یک ذہن کے کسی گوشہ میں یہ خیال آیا کہ دوزخ کے باسی لوگ آخر کس طرح زندگی گزاریں گے۔ خیال کا آنا تھا کہ آہ و بکا، چیخ و پکار اور دلدوز آوازیں کانوں کے پردے سے ٹکرائیں۔ ان آوازوں سے میں بری طرح سہم گیا، پتّہ پانی ہو گیا، جگر خون بن گیا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور میں بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آیا تو بدستور حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں موجود تھا۔ حضور رح نے تبسم فرمایا اور ارشا د کیا” یہ جگہ ان لوگوں کا ٹھکانا ہے جو اپنے رب سے ازل میں کئے وعدے سے انحراف کرتے ہیں” میں رونے لگا اور روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے اس عاجز و مسکین کے سر پر دست شفقت رکھا اور تسلّی دی کچھ کھانے کو عطا کیا( جو یاد نہیں کیا چیز تھی) اور فرمایا۔ ” جنّت کیا ہے۔یہ ان لوگوں کا مقام ہے جو انعام یافتہ ہیں”
جنّت کے خوبصورت اور بلند وبالا دروازے پر رضوان کو کھڑے دیکھا۔ رعنائی حُسن کیا بیان کروں! ایسا حسن جس کو احاطہ تحریر میں لایا جائے تو نوع انسانی کے لاکھوں سال کے ذخیرہ شدہ الفاظ ختم ہوجائیں اور حسن کا بیان پایہ تکمیل کو نہ پہنچے۔ جنّت کے فرشتے رضوان پر نظر پڑ ی تو کششِ حسن سے پورا جسم کانپنے لگا۔رضوان آگے بڑھا اور مصافحہ کیا۔ قرار آ گیا۔ بولا ” تم سلطان العارفین خواجہ غریب نواز کے مہمان ہو۔ اندر جا سکتے ہو”۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 51 تا 53

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)