درخت بولتے ہیں
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=29199
سوال: پچھلے دنوں ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام میں یہ بتایا اور دکھایا گیا کہ پودے اور درخت بھی سوچنے، سمجھنے اور گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ علم روحانیت اس موضوع پر کیا کہتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہمیں ان کی گفتگو سنائی کیوں نہیں دیتی۔
جواب: جس طرح انسان الفاظ کے ذریعے اپنے جذبات اور احساسات کاا ظہار کرتے ہیں بالکل اسی طرح درخت اور دوسرے حیوان اپنے جذبات و احساسات کا اظہار الفاظ کا سہارا لئے بغیر کرتے ہیں۔ جذبات و احساسات کے اس اظہار کو فریق ثانی پورے معانی کے ساتھ سمجھتا ہے۔ قرآن پاک میں چیونٹی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی گفتگو کا تذکرہ بہت غور طلب ہے۔ چیونٹی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک دوسرے سے گفتگو کی اور بات کو پوری طرح سمجھا۔ ظاہر ہے چیونٹی نے الفاظ میں گفتگو نہیں کی بلکہ اس کے خیالات کی لہروں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذہن نے قبول کیا اور ان کو سمجھا۔ قانون یہ ہے کہ خیالات اپنے معانی اور مفہوم کے ساتھ نوع انسانی اور دوسری تمام نوعوں میں رد و بدل ہوتے رہتے ہیں۔ الفاظ کا سہارا درحقیقت ایک شعوری کمزوری ہے اس لئے کہ شعور الفاظ کا سہارا لئے بغیر کسی چیز کو سمجھ نہیں پاتا۔
انسان کے تمام حواس گونگے بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کائنات کا ہر فرد ایک تفکر ہے۔
ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں، انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنے تفکر ہیں ان سے انسان کا تفکر بالکل اسی طرح متاثر ہوتا رہتا ہے جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتا ہے۔ قدرت کا یہ چلن ہے کہ وہ لا متناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا درمیانی رشتہ کٹ جائے۔ ایک تفکر کا دوسرے تفکر سے خیالات کی لہروں کے ذریعے ارتباط قدرت کے اس طرز عمل کا جزو ہے۔
عام زبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتا ہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جس کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔ ہمارے تصور میں یہ بات تو بالکل ہی نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں، ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ ان کی انا یعنی تفکر کی لہریں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں۔ اور ہم سے بہت کچھ لیتی ہیں۔ تمام کائنات اس وضع کے تبادلہ خیالات کا ایک خاندان ہے۔ کوئی انسان جب مراقبہ کے ذریعے اپنے اندر اس صلاحیت کو بیدار کر لیتا ہے تو جو الفاظ کا سہارا لئے بغیر خیالات کا مفہوم اور معنی سمجھتی ہے تو نہ صرف یہ کہ درختوں کی باتیں سن لیتا ہے۔ بلکہ دوسری گفتگو بھی اس کے کان میں پڑنے لگتی ہے۔ ٹیلی پیتھی کیا ہے؟ ٹیلی پیتھی ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے آدمی الفاظ کا سہارا لئے بغیر اپنے خیال کو دوسرے تک پہنچا دیتا ہے۔
عام زندگی میں بھی اس کی بہت مثالیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہم بارہا اس تجربے سے گزرتے ہیں کہ تعلق خاطر کی بناء پر ہمارا کوئی قریب دوست یا رشتہ دار دور دراز مقام پر پریشانی کے عالم میں ہمیں یاد کرتا ہے تو اس کے خیالات ہم تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کی تکلیف سے ہم غیر ارادی طور پر پریشان ہو جاتے ہیں اور پھر عقدہ کھل جاتا ہے کہ اس کے پریشان کن خیالات نے ہمارے دماغ کو باخبر کیا تھا۔ لیکن ہم خیالات کے تبادلے کے قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے حتمی معانی نہیں پہنا سکتے۔ درختوں کی آپس میں اس گفتگو کو ہم اس لئے نہیں سمجھتے کہ ہم الفاظ کا سہارا لئے بغیر بات کرنے کے قانون سے ناواقف ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 169 تا 170
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔