داتا کے دربار میں
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17667
کراچی۔۔۔
میں نے بہت زیادہ معافی تلافی کے بعد پھر اسباق شروع کر دیئے اور جیسے ہی اسباق شروع کئے چشتیہ سلسلہ کے بزرگ اور تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب کے پیر بھائی حافظ قمر الدین صاحب کی روزانہ زیارت ہونے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کیچڑاور گندگی میں لت پت ہوں۔ حافظ صاحب تشریف لائے اور مجھے اس گندگی سے نکال کر کسی دریا کے کنارے لے گئے۔ اور نہلا دھُلا کر صاف کر دیا۔
پھر دیکھا کہ میرے کپڑے گندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں اور حافظ صاحب نے میرے کپڑے اترواکر خود دھوئےاور مجھے صاف ستھرے کپڑے پہنا دیئے۔
یہ بھی دیکھا کہ میرے جسم پر پھنسیاں اور پھوڑے نکل آئےہیں اور حافظ صاحب ان کو روئی سے صاف کر رہے ہیں۔
میرے جسم سے پیپ اور کچھ لہو بہہ رہا ہے اور حافظ صاحب فرما رہے ہیں ۔ ایک دن سبق پڑھتےوقت غنودگی میں دیکھا میرے دادا حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رح اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح تشریف لائے اور میرے سراپا کا معائنہ کر کے چلے گئے۔
اس زمانے میں میرے معاشی حالات انتہائی ابتر تھے۔ میرے شریک کار نے مجھے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ میں اسباق چھوڑ دوں، جب میں کسی طرح راضی نہیں ہوا تو ایک حکیم صاحب کو میرے پیچھے لگا دیا۔ میں ان کو بزرگ مانتا تھا، وہ ہمیشہ ایک بات ہی کہا کرتے تھے کہ یہ سب کام بڑھاپے میں کئے جاتے ہیں تم کس چکر میں پڑ گئے ہو ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے۔
ادھر حالات اتنے دگر گوں ہو گئے کہ روٹی کپڑا چلانا مشکل ہو گیا۔ یہ میری بہت بڑی کمزوری تھی کہ میں نے حالات کے سامنے ہتھیا ر ڈال دیے۔ اور میں نے سبق پڑھنا پھر ترک کر دیا۔
جس رات میں نے سبق پڑھنا چھوڑا، اسی رات حافظ صاحب کو دیکھا ، فرما رہے ہیں کہ تو صرف تین مہینے اور صبر کر لے۔ کپڑوں کی پروا نہ کر ۔ تین مہینے گھر میں بیٹھ کر گزار دے۔ کھانے کا میں ذمہ لیتا ہوں ۔ تجھے بھوکا نہیں رہنے دونگا۔ مگر میں نے حافظ صاحب کے فرمانے پر عمل نہیں کیا۔ میرے اس طرز عمل سے حافظ صاحب بہت دل برداشتہ ہوئے۔ اور برابر ایک ہفتہ تک خواب میں آکر فرماتے رہے ۔
” ارے کم ہمت لوگ تو بیس بیس سال کوشش کرتے ہیں ۔ تو کس قدر نادان ہے کہ تین ماہ بھی صبر نہیں کر سکتا۔”
افسوس میرے اوپر حافظ صاحب کے فرمانے کا مطلق اثر نہیں ہوا۔ اور میں نے اسباق پڑھنا بالکل ترک کر دئے۔۔۔
چشتیہ سلسلہ کے اسباق ترک کرنے کے چھ ماہ بعد مجھے یہ اطلاع ملی کہ حافظ صاحب نے وصال فرمایا تو میرے دماغ پر سخت چوٹ لگی اور رہ رہ کر خیال ستانے لگا کہ تو بہت ہی نالائق اور کندہ ناتراش ہے کہ تین مہینے صبر نہیں کر سکا۔ اسی کرب میں مبتلا تھاکہ سہروردیہ سلسلہ کے ایک بزرگ چودھری صاحب سے نیاز حاصل ہوا۔ اسی مرد خدا میں کچھ ایسی کشش تھی کہ میں کھینچتا چلا گیا۔ اسی دوران میں حضرت بابا غلام محمد صاحب، خلیفہ جنگو شاہ قلندر کا عرس لاہور میں شروع ہونے کی تاریخوں کی اطلاع ملی۔ حضرت بابا غلام محمد صاحب، حضرت چودھری صاحب کے دادا پیر ہے۔ میں بھی اپنے شریک کار کی شدید مخالفت کے باوجود چوہدری صاحب کے ساتھ لاہور روانہ ہو گیا۔ ریل میں انٹر کلاس کی سات یا آٹھ سیٹ ریز رو کرائی گئی تھیں۔ مجھے بہت اسرار کے ساتھ چودھری صاحب نے اوپر کی سیٹ پر لٹا دیا۔ میں نے ہر چند منت سماجت کی کہ حضور یہ بے ادبی اور گستاخی ہے کہ میں اوپر کی سیٹ پر بیٹھوں اور رات کو آرام کرو ں۔ مگر مجھ سے فرمایا یہ میرا حکم ہے ۔ قہر وردیش بر جانِ درویش، میں نے تعمیل کی اور رات کو اوپر سورہا۔
صبح بیدار ہونے کے بعد یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی کہ میں جب بھی آنکھیں بند کرتا تھا، مجھے باغات، دریا، پہاڑ ، خوبصورت پھول ، پل ، ندی نالے دیہات اور دور دور کے شہر نظر آتے تھے ۔ کراچی سے لاہور تک سارے راستے میں یہ منازل دیکھتا رہا۔ اب مجھے بھی مزا آنے لگا۔ میں نے بھی سفر میں ضرورت کے علاوہ آنکھیں نہیں کھولی۔
جب بھی چودھری صاحب سے نظریں چار ہوتی تھیں ، وہ بہت میٹھی نظروں سے دیکھ کر مسکرا دیتے تھے۔
لاہور پہنچے تو شام کا وقت تھا۔ جن صاحب کے یہاں قیام کیا وہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت خوش اخلاق اور بزرگوں کی عقیدت سے سر شار انسان تھے۔
آئندہ روز ہماری پیشی صبح کے وقت حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی نور اللہ مرقدہ کے دربار میں ہوئی۔ یہ بزرگ ہستی جن کے چہرے سے معصومیت ٹپکی پڑتی تھی، قلعہ گوجر سنگھ میں قیام فرما تھے۔
چودھری صاحب نے فرمایا۔” حضرت جی : میں اس کو ( میری طرف اشارہ کرکے) آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں”
حضرت صاحب نے خوشی کا اظہار فرمایااور مجھے اپنے قریب بلا کر نہایت گرمجوشی سے مصافحہ فرمایا۔ کچھ دیر کے بعد لوگوں نے کھانا شروع کیا تو مجھ سے فرمایا کہ تو کھانا میرے ساتھ کھانا۔
میں حیران و پریشان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھاکہ ہزاروں کے مجمع میں آخر میرے ساتھ یہ التفات کیوں ہے؛ جلسہ شروع ہونے سے قبل خاص طور سے مجھےانتہائی پچھلی صفوں سے بھلا کر اسٹیج پر بٹھایا۔ میں اپنی اس پذیرائی بجائے خوش ہونے کے انتہائی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔
جلسہ ختم ہونے کے بعد اس بندہ گناہگار کی طلبی ہوئی۔ کمرے میں اپنے پاس بیٹھنے کو فرمایا۔ بہت سی ہلکی پھلکی باتیں کیں۔
کراچی سے جانے والے ہم سب لوگ اپنے مقام پر واپس آگئے۔ اگلی صبح کسی صاحب کے یہاں موچی دروازے میں ناشتہ کی دعوت تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد ایک بڑی شیور لیٹ کارمیں ہم چار آدمی چوہدری صاحب کے ہمراہ پاک پٹن شریف کے لئے روانہ ہوگئے۔
پاک پٹن شریف میں حضرت بابافریدرح کی قبر مبارک پر بیٹھ کر فاتحہ خوانی کی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر شق ہوگئی اور بابا صاحب رح کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ حضرت گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے رحل پر قرآن پاک رکھا ہوا ہے اور وہ تلاوت میں مصروف ہیں۔
جب میں مزار سے باہر آیا تو چودھری صاحب نے فرمایا کسی سے کچھ نہ کہنا۔ گھر چل کر بات کریں گے۔ پاک پٹن میں چودھری صاحب کے ایک مرید تھے۔ ہم ان کے گھر گئے۔ انہوں نے بہت پرتکلف ناشتہ کرایا۔ میز پر ناشتہ کے دوران چودھری صاحب نے فرمایا۔” ہاں بھائی؛ تم بہت بے قرار ہو چلو سنا دو۔” (اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت باباصاحب کی زیارت کرنے کا واقعہ بیان کرنے کیلئے بے چین تھا)۔
میں نے قبر شق ہونے اور حضرت بابا فرید گنج شکر رح کی زیارت کا واقعہ سنا دیا۔ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ حیران ہو گئے۔ بلکہ دو صاحبان پر تو انتہائی مایوسی طاری ہو گئی۔ اور وہ اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے ہم تو اتنے پرانے بھی ہیں اور مرید بھی ہیں۔ اس کو آئے ہوئے ایک دو ہفتے ہوئے ہیں اور مرید بھی نہیں ہوا، اس پر شیخ کی اتنی عنایت کہ بابا صاحب کی زیارت کرا دی۔
چودھری صاحب نے پوچھا ۔” تم نے کچھ دیکھا ہے اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟
“میں اس کو شعبدہ سمجھتا ہوں اور آپ نے مجھے ہپناٹائزڈ کر دیا ہے۔” میں نے کہا
حضرت چودھری صاحب مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ قصہ کوتاہ ہم سیالکوٹ میں امام صاحب کے مزار کی زیارت کے بعد لاہور واپس آگئے۔
لاہور میں کسی صاحب کے یہاں دوپہر کا کھانا تھا۔ کھانے کے دوران میں ساتھیوں نے کہا کہ کھانے سے فارغ ہو کر داتا دربار جائیں گے۔
چودھری صاحب نے فرمایا” پھر کسی دن چلیں گے”
ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تو حضرت صاحب سے درخواست کر۔
میں نے کہا” یہ تو بہت بُری بات ہے۔ جب فرمادیا کہ کسی دوسرے دن چلیں گےتو اب کچھ کہنا خلاف ادب ہے لیکن ان لوگوں نے کانا پھوسی کرکے مجھے اس بات پر مجبور کر دیا کہ میں عرض کروں کہ آج ہی داتا دربار جائیں گے۔
گاڑی میں بیٹھے اور ڈرائیور نے پوچھا” حضور ؛ کہاں جاناہے؟
اس سے قبل کہ چودھری صاحب کچھ جواب دیں، میں نے جلدی سے کہدیا ” داتا دربار چلیں گے”
چودھری صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھااور مجھے دیکھ کر مسکرائےاور فرمایا۔ ” چلو، پھر داتا دربار ہی چلو یہ بھی کیا یاد کرے گا”
جس وقت موٹر بادامی با غ میں داخل ہوئی تو خود بخودمیری آنکھیں بوجھل ہو کر بندہو گیئں اور میں نے دیکھا ایک دبلے پتلے بزرگ گاڑی کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں اور حضرت چودھری صاحب سے باتیں کرتے جارہے ہیں۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا۔پھر آنکھیں بند کیں تو پھر وہی منظر سامنے تھا۔ مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ گاڑی کی رفتار کے ساتھ 35 میل کی رفتار سے کوئی آدمی کیسے چل سکتا ہے۔ مگر جب آنکھیں بند کرتا تو وہی منظر سامنے آجاتاتھا۔
ہماری گاڑی رکی اور ہم لوگ اتر کر حضور قبلہ والم، ناقصاں را پیر کامل کاملاں دا رہنما، حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضر ہو گئے۔
یہاں آکر میں نے چودھری صاحب سے درخواست کی کہ حضور داتا صاحب رح کی زیارت ہوجائے تو میں آپ کو قرآن سناؤں گا۔
بس صاحب؛ ہم لوگ آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ دیکھا کہ ایک میدان ہے۔ اس میدان میں ایک درخت ہے۔ درخت کے نیچےچارپائی بچھی ہوئی ہے اور چار پائی پر وہی بزرگ تشریف رکھتے ہیں جو ۳۵میل کی رفتار سے گاڑی کے ساتھ چل رہے تھے۔ ابھی میں اس خیال میں گم ہی تھا کہ میں نے دیکھا۔ بڑے حضرت جی ، حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا۔” آؤ اور حضور داتا صاحب کی قدم بوسی کرو۔”
سبحان اللہ ؛ کیا نوازش اور اکرام ہے، اس بندے نے حضور داتا صاحب کو سلام کیا اور قدم چومے۔
داتا صاحب نے فرمایا۔” ہم نے سنا ہے تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو۔ ہمیں بھی سناؤ۔
اور میں نے قرآن پاک کا ایک رکوع سنایا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قرآن پاک داتا صاحب کو سنا رہا تھالیکن آواز قبر کے باہر بھی ایسے ہی آرہی تھی جیسے قبر کے اندر۔ حضور داتا صاحب نے قرآن سن کر خوشی کا اظہار فرمایا۔ اور میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہم فاتحہ پڑھ کر واپس ہو گئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 17 تا 23
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔