خواجہ غریب نوازرح کے دربار میں
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17703
یاحی یا قیوم کا ورد زبان پر تھا کہ غیر اختیاری طور پر درود شریف پڑھنے لگا۔ کچھ ایسا گُداز پیدا ہوا کہ دل بھر آیا۔ اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اندر کا غبار دھل گیا تو دماغ سراپا سرور بن گیا۔ آنکھیں بوجھل ہوگئیں۔ نظر ایک روشن نقطہ پر ٹھہر گئی اور دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے آدمی کسی بزرگ کی زیارت کے لئے جمع ہیں۔ میں نے پوچھاکہ وہ بزرگ کہاں ہیں جن کی زیارت کے لئے آپ سب حضرات جمع ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب نے اشارے سے بتایاکہ وہ سامنے کوٹھری میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں مجمع کو چیرتا ہوا اس کوٹھری میں داخل ہو گیا۔ دیکھا کہ تخت پر ایک بزرگ تشریف فرما ہیں۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ قبلہ حاجی وارث علی شاہ صاحب رح ہیں میں نے نہایت عقیدت کے ساتھ سلام کیا۔ پھر دیکھاکہ تخت کے ساتھ ایک ڈیسک نما الماری بنی ہوئی ہے۔ اس ڈیسک پر چند رجسٹررکھےہوئے ہیں ۔ حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب رح سے عرض کیا۔” حضور میرے پاس ٹکٹ نہیں اور مجھے ٹکٹ کی ضرورت ہے”۔ یایوں گزارش کی ” میرے پاس اس خاندان کا لکھا ہوا پاس نہیں ہے، مجھے پاس دیدیجئے۔”
ایک صاحب نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر کہا” یہ شخص ہمارے خاندان کا فرد نہیں۔”
میں نے عرض کیا ” میں اس خاندان کا ادنیٰ غلام ہوں، ایسا غلام جس کی نسبت خاندانِ چشت سے قائم ہے۔ میرے نام کا رجسٹر میں اندراج ہونا چاہیئے۔ ان صاحب نےپھر مخالفت کی اور پھر خاموش ہوگئے۔ حضرت وارث علی شاہ صاحب نے مجھے چار ٹکٹ اور ایک سند عطا فرما دی اور میں وہ سند لے کر کوٹھری کے باہر آگیاواپس آکر میں نے دیکھا کہ ایک کوٹھے کا زینہ ہے اور زینہ پر میرے دادا کے خلیفہ حضرت حافظ فخرالدین صاحب رح سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں لپک کر سیڑھیوں پر چڑھ گیا اور حضرت کو سلام کیا۔ حضرت نے سلام کا جواب دے کر فرمایا” تو میرے پاس کیوں آیا ہے؟ میں نے فورا اپنے دادا کا واسطہ دیا اور انتہائی لجاجت اور عاجزی کے ساتھ ساتھ رہنے کی درخواست کی لیکن جب میری کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو میں نے بلند آواز سے کہا۔ قبلہ ! جب تک آپ مجھے قبول نہیں فرمائیں گے، میں یہاں سے ہر گز نہیں جاوں گا۔”
اس بات پر حضرت کو ہنسی آگئی اور فرمایا۔” تو بہت شریر ہے۔”
میں نے عرض کیا حضور میں آپ کا غلام بھی ہوں اور غلام اپنے آقا پر ناز بھی کرتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت حافظ صاحب کی نا گواری خوشی میں بدل گئی۔ اور جیسے ہی یہ بات وقوع پذیر ہوئی حِدّ نظر تک میرے سامنے نہایت خوبصورت تالاب آگیا۔ دیکھا اس تالاب میں بہت شفاف پانی بھرا ہوا ہے اور پانی کی تہہ سے بڑی ہی عجیب قسم کی روشنیاں ابل رہی ہیں۔ جب یہ صورت واقع ہوئی تو بزرگ وہاں سے تشریف لے گئے میں اوپر چڑھ گیا۔ میں نے اوپر سے دیکھا کہ ایک میدان ہے۔ اور اس میدان میں پیران پیر دستگیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح کا عرس ہو کر ختم ہوا ہے۔ اور دریاں لپیٹ کر اوپر چھت پر رکھی جا رہی ہیں۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ حضور غریب نواز خواجہ اجمیری رح کے مزار پر جائیں گی۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے خود کو ایک دری میں لپیٹ لیا۔ پھر کچھ لوگ آئے اور وہ دریوں کو اپنے سروں پر اٹھا کر ہوا میں اڑنے لگے۔ میں جس دری میں لپٹا ہو ا تھا وہ بھی اُٹھا لی گئی۔ اور میں اس دری کے ساتھ حضور خواجہ غریب نواز کے مزار پرُ انوار کی چھت پر پہنچ گیا۔ میں دری سے باہر آگیا اور چھت سے نیچے ایک احاطہ میں اُتر آیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے سارے بچےّ وہاں موجود ہیں۔ اور بچوں کی والدہ بھی وہاں ہیں۔ دو بچّے میرے آگے آگے ہو گئے اور میں ان دونوں بچوں کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ بالآخر میں حضور خواجہ غریب نواز رح کے روضہ اقدس کے اندر پہنچ گیا۔ میں نے دروازے سے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ نو بچوں کے قدموں کے نشان نظرآئے لیکن روضہ اقدس میں صرف دو ہی بچے اندر آئے میں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ روضہ کے اندر ایک بہت ہی کشادہ کمرہ ہے اور اس کشادہ کمرے میں ایک چار پائی بچھی ہوئی ہے۔ اور چار پائی کے کافی فاصلہ پر حضور خواجہ غریب نواز زمیں کے اوپر فرش پر چادر اوڑھے لیٹےہوئے ہیں۔ ایک بچہ تیز تیز قدم اٹھاکر حضور خواجہ غریب نواز کے پاس پہنچ گیا۔ اور جا کر بلند آوازمیں کہا ” السلام علیکم”
حضور خواجہ غریب نواز رح نے چادر سے چہرہ انور باہر کر کے دیکھا اور فرمایا “یہ کس کا بچہ ہے؟” پھر پہچان کر فرمایا۔” آجا، میرے پاس آ جا”
دوسرا بچہ چار پائی پر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے بہت کہا کہ تو بھی حضور خواجہ غریب نواز رح کے پاس چلا جا لیکن وہ بچوں کی طرح شرما گیا اب میری روئداد سنئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 49 تا 51
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔