خواب کی تعبیر کا علم
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19146
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کو خواب کی تعبیر کا علم عطا کیا تھا یعنی انہیں لاشعوری حواس کا پورا پورا علم تھا۔ لاشعوری حواس کے علوم انسان کو ٹائم اسپیس کی حد بندیوں سے آزاد کر دیتے ہیں اور خواب کے علوم جاننے والے پر غیب کی دنیا روشن ہو جاتی ہے۔
قرآن حکیم نے حضرت یوسفؑ کے قصہ کو بیان کر کے ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ خواب صرف خیالات نہیں ہیں۔
انسان کی نصف زندگی خواب ہے اور نصف زندگی بیداری ہے۔
قانون یہ ہے کہ بیداری میں جن باتوں یا جن خیالات پر ہماری توجہ مبذول رہتی ہے وہ باتیں ہم سمجھ لیتے ہیں اور وہ ہمیں یاد رہتی ہیں۔ اس طرح اگر ہم خواب میں دیکھے ہوئے واقعات میں اپنی توجہ قائم کر لیں تو خواب یاد رہتے ہیں اور ہم ان کے اندر معنی پہنا لیتے ہیں۔ بیداری ہماری شعوری زندگی اور خواب ہماری لاشعوری زندگی ہے۔
ایک روز بادشاہ نے کہا! میں نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی۔ اے اہل دربار! مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔ لوگوں نے کہا! یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے۔
ان دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اسے ایک مدت دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اس نے کہا! میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسف کے پاس) بھیج دیجئے۔
اس نے جا کر کہا، یوسف! اے سراپا راستی! مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی۔ شاید کہ میں ان لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید کے وہ جان لیں۔
یوسف نے کہا!
’’سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ جو تمہاری خوراک کے کام آئے نکالو اور باقی کو اس کی بالیوں ہی میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اس وقت کے لئے جمع کرو گے اگر کچھ بچے گا تو وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑینگے۔‘‘
(سورۃ یوسف: ۴۳۔۴۹)
ایسا ہی ہوا جیسے خواب کی تعبیر دی گئی تھی۔ سات سال تک کھیتی باڑی خوب ہوئی اور سات سال تک ملک و قوم کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت یوسفؑ نے سات سال تک غلہ محفوظ رکھنے کے لئے گودام تعمیر کروائے۔ ان گوداموں کے بارے میں تاریخ انکشاف کرتی ہے کہ:
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 195 تا 196
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔