حقیقت آگاہی
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=24752
سوال: آج نوع انسانی جس ذہنی کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ روحانی طرزوں میں اس رہنمائی کو آشکار کر دیجئے جس سے آج کی پریشان ذہن اور پراگندہ دل، نسل اپنے مستقبل کو سنوار سکتی ہے؟
جواب: نوع انسانی کی نسل میں ذہنی کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر انبیاء کی طرز فکر کا انعکاس کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کے اپنے بنائے ہوئے مفروضہ حواس نے اسے حقیقت آگاہی سے محروم کر دیا ہے۔ مینارہ نور ہدایت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
انبیاء کرام جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے جب کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مدنظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں اور ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔
آج کی نوع انسانی چونکہ انبیاء کی طرز فکر سے بے بہرہ ہے اورFICTIONحواس سے مغلوب ہے مادہ یعنی MATTERپر اس کا یقین غالب اور مادہ کے خالق پر اس کا یقین کمزور ہے۔ اس لیے دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
جہاں تک نسل انسانی کو اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے رہنمائی کا تعلق ہے تو یہ گر بھی حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ آشکار فرما گئے ہیں۔ اس جمال کی تفصیل میں آپ نے فرمایا’’اگر ہم کسی شخص سے قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو مطلوب کرتا ہے اگر ہم اللہ سے دوستی اور قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں، مخلوق کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مخلوق سے کوئی صلہ یا بدلہ نہیں چاہتے بندہ اگرچہ خالق کی سطح پر مخلوق کی خدمت نہیں کر سکتا لیکن اپنی ہر حاجت اور ضرورت کو اللہ تعالیٰ کی ذات اکبر سے سے وابستہ کر سکتا ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا ایک رکن بن جاتا ہے۔
حضور قلندر بابا مزید فرماتے ہیں کہ ’’ہر کام پوری جدوجہد اور کوشش سے کیا جائے لیکن نتائج کو اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 138 تا 140
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔