حضرت شعیب علیہ السلام
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19246
حضرت ابراہیمؑ کی تیسری زوجہ قطورہ کے بطن سے چھ بیٹے تولد ہوئے۔ ایک بیٹے کا نام مریان تھا۔ حضرت شعیبؑ کا تعلق قبیلہ مریان سے تھا۔ مریان یا مدین کی شادی حضرت لوطؑ کی صاحبزادی سے ہوئی اور وہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ حجاز میں آباد ہوئے۔
مدین بن ابراہیم کی اولاد میں تمام قبائل انہیں کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت شعیبؑ کی بعثت کے وقت یہ قبائل بحر قلزم کے مشرقی کنارے اور عرب کے شمال مغرب میں شام سے متصل حجاز کے سرحدی علاقے میں آباد تھے۔
حضرت شعیبؑ کا زمانہ سولہویں یا سترہویں صدی قبل مسیح بنایا جاتا ہے۔ توراۃ نے آپ کا تذکرہ حویاب (Hobab) اور یترو(Jethro) کے نام سے کیا ہے۔ حضرت شعیبؑ بڑے فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ شیریں کلامی، حسن خطابت اور طرز بیان میں اپنا منفرد انداز رکھتے تھے۔ آپ خطیب الانبیاء مشہور ہیں۔
خوشگوار آب و ہوا کی وجہ سے حجاز میں درخت، پھولوں اور پھلوں سے بھرے رہتے تھے۔ شاداب، اونچے اور گھنے درخت آسمان سے باتیں کرتے تھے۔
قرآن حکیم نے وہاں کے باسیوں کو ’’اصحاب الایکہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ’’ایکہ‘‘ سرسبز و شاداب پھولوں سے لدی ہوئی جھاڑیوں کو کہتے ہیں۔ شاداب زمین اور بستی کے چاروں طرف باغات کی وجہ سے اہل مدین متمول اور خوشحال تھے۔ تجارت ان کا پیشہ تھا۔ دین ابراہیمی پر یہ قوم جب تک عمل پیرا رہی مادیت کی چکا چوند اور سونے چاندی کی چمک ان کو مرعوب نہ کر سکی۔ قوم نے جب الہامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اور اجتماعی فلاح کی جگہ ذاتی اغراض اور انفرادی مفادات نے لے لی تو لوگ گمراہ ہو گئے۔ حضرت شعیبؑ کی قوم راندہ درگاہ ابلیس کی طرح کبر و نخوت میں مبتلا ہو کر گمراہی کے راستے پر چل پڑی۔ دوسرے لفظوں میں ابلیس نے نسل آدم سے بدلہ لینے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا کہ ان کے اندر غرور و تکبر کا بیج بو دیا۔ زمین کی زرخیزی، باغوں کی شادابی، وسائل کی فراوانی، تجارت میں نفع اور زندگی کی ہر آسائش مہیا ہونے سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ سب کچھ ان کی محنت اور زور بازو کا نتیجہ ہے۔ اللہ کریم کی بخشش اور عطا سے ان کی نظر ہٹ گئی تھی۔ شکر گزاری ختم ہو گئی تھی۔ کبر و نخوت سے گردنیں تن گئی تھیں۔ دماغ میں گھمنڈ بھر گیا تھا۔ دل زنگ آلود ہو گئے تھے۔ جب دل کا آئینہ دھندلا ہو جاتا ہے تو نگاہ محدود ہو جاتی ہے۔ انا کے خول میں بند ہو کر انسان اجتماعی احساسات سے دور ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 219 تا 220
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔