حضرت الیاس علیہ السلام
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19620
حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ’’احبعام‘‘ (Rehoboam) کے دور میں بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ بیت المقدس اور جنوبی فلسطین آل داؤد کے قبضہ میں تھا جبکہ شمالی فلسطین میں اسرائیل کے نام سے الگ ریاست قائم تھی۔ میلا (موجودہ لبنان) کے بت پرست بادشاہ کی بیٹی ایزابل (Iezebel) سے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی شادی کے بعد ملک میں فسق و فجور اور شرک و بت پرستی کا دور دورہ ہو گیا۔
قدیم زمانے کے سامی اقوام خصوصاً لبنان کی فینقین قوم (Phoenican) کا سب سے بڑا دیوتا بعل بت تھا۔ اس کا قد سو فٹ تھا جو پورے کا پورا سونے کا بنا ہوا تھا۔ بعل کے چار منہ تھے۔ اس قوی ہیکل بت کی خدمت اور دیکھ بھال کے لئے چار سو خدام مامور تھے۔ اس بات کی عشتارات (Ashtoreth) نام کی ایک بیوی بھی تھی۔
اخی اب نے اسرائیل کے صدر مقام سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا۔ سامریہ شہر بعلبک کے نام سے مشہور ہوا۔ جس کی وجہ تسمیہ یہی بات ہے۔ بک ’’بکہ‘‘ کا مخفف ہے جس کے معنی شہر کے ہیں اور بعلبک کا مطلب ہے (سامی اور عبرانی زبانوں میں بعل کے معنی مالک، سردار، حاکم اور رب کے آتے ہیں۔ اہل عرب شوہر کو بھی بعل کہتے ہیں) بعل دیوتا کا شہر۔ بعل کی پرستش اور مشرکانہ عقائد کی طرف اخی اب کا رجحان دیکھ کر اسرائیل کے شہروں میں اعلانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں۔
بنی اسرائیل کی روایتی گمراہی اور بے دینی عروج پر تھی۔
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور رہنمائی کے لئے حضرت الیاس علیہ السلام کو مبعوث کیا۔ آپ جلعاد کے رہنے والے تھے۔ حضرت الیاس علیہ السلام حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھے۔ بائبل نے حضرت الیاس علیہ السلام کا تذکرہ ’’ایلیاہ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔
حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توحید کا درس دیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ واحد اور یکتا ذات ، قادر مطلق ہستی اللہ کو چھوڑ کر بعل کو پکارتے ہو۔ حالانکہ یہ نہ تو تمہاری حاجت روائی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس اللہ کی طرف لوٹ آؤ جو کہ نہ صرف تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا رب ہے بلکہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے ان کا خالق و مالک ہے۔
قوم گمراہی میں اس قدر مبتلا ہو گئی تھی کہ اس نے حضرت الیاس علیہ السلام کی پرحکمت اور نور سے منور دعوت توحید پر کان نا دھرا اور بدستور اپنی روش پر قائم رہی ۔ آپ نے بادشاہ وقت اخی اب کو دعوت دی اور احساس دلایا کہ وہ گناہوں سے باز آ جائے، شرک و بت پرستی اور دیگر قبیح افعال سے توبہ کر لے اور اپنی رعایا کو بھی اس امر سے باز رکھے کیونکہ پوری قوم کا گناہ اس کے سر پر ہے۔ اگر وہ باز نہ آیا تو اللہ کے عتاب کا نشانہ بنے گا۔ پوری قوم خشک سالی کا شکار ہو جائے گی۔
لیکن اخی اب نے آپ کے پند و نصائح کا ذرہ برابر اثر قبول نہیں کیا اور پیغام حق کو جھٹلاتا رہا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 288 تا 289
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔