حضرت ابراہیمؑ کا خواب
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18950
الہامی کتابوں میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات مبارک سے جاری ہونے والی ایک اور سنت کا تذکرہ بھی ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کے والد بزرگوار حضرت ابراہیمؑ نے مسلسل تین راتوں تک ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب اپنے بیٹے کو سنایا تو فرمانبردار بیٹے نے عرض کیا کہ آپ اللہ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر ہیں۔ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل بجا لائیں۔ انشاء اللہ آپ مجھے صابر اور شاکر بندوں میں سے پائیں گے۔
اللہ کے حکم کی تکمیل کے لئے دونوں برگزیدہ بندے گھر سے روانہ ہوئے تو ابلیس ان کے ارادے کو متزلزل کرنے کے لئے حضرت ہاجرہؑ کے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں۔ حضرت ہاجرہؑ نے فرمایا کہ اسماعیلؑ ہماری اکلوتی اولاد ہے اور بہت دعاؤں کے بعد اللہ نے یہ نعمت ہمیں عطا کی ہے۔ اسماعیلؑ کا باپ ایسا نہیں کر سکتا کہ بلاوجہ اسے جان سے مار دے۔
ابلیس نے کہا:’’تمہارے رب کا یہی حکم ہے کہ اپنے بیٹے کو قربان کر دو۔‘‘ یہ سن کر بی بی ہاجرہؑ نے کہا کہ ’’اگر یہ میرے اللہ کا حکم ہے تو میں اس کی رضا پر راضی ہوں۔‘‘
ابلیس ناکام ہو کر حضرت ابراہیمؑ کے پاس آیا۔ باپ کی شفقت اور محبت کو مہمیز لگانے کے لئے بولا۔ آپ عمر رسیدہ ہیں اور اسماعیلؑ آپ کی اکلوتی اولاد ہے اگر آپ نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا تو آپ کی نسل نہیں بڑھے گی۔ حضرت ابراہیمؑ نے جواب میں فرمایا:’’اسماعیلؑ سے میرا تعلق اللہ کے لئے ہے یہ تعلق اس بنیاد پر ہے کہ اللہ نے اس کی پیدائش کے لئے مجھے وسیلہ بنایا ہے۔ بیٹا میرے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اللہ ہم سب کا مالک اور مختارِ کل ہے وہ جب چاہے اور جیسا چاہے حکم دے۔ ہم سب اس کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔‘‘
ابلیس نامراد ہو کر واپس چلا گیا لیکن اس نے ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لئے حضرت اسماعیلؑ کو بہکایا۔
حضرت اسماعیلؑ نے کہا:’’میرے اللہ کا جو حکم ہے میں اس پر راضی ہوں۔ میرے والد اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ ملائکہ مقربین کے سردار جبرائیلؑ ان کے پاس وحی لے کر آتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں۔‘‘
قربان گاہ کی طرف جاتے ہوئے ابلیس نے تین بار ان کے ارادے میں دخل انداز ہونے کی کوشش کی اور ہر بار حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے ان پر سنگ باری کی۔
یہی وہ سنت ہے جس کو حجاج کرام ہر سال حج کے موقع پر دہراتے ہیں اور یہ سنت ’’رمی جمار‘‘ کہلاتی ہے۔ باپ بیٹے دونوں جب منیٰ کے مقام پر پہنچے تو حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا اور گردن پر چھری پھیر دی۔
’’پس جب ان دونوں نے رضا و تسلیم کو اختیار کر لیا اور پیشانی کے بل اس کو پچھاڑ دیا ہم نے اس کو پکارا یوں کہ اے ابراہیم! تو نے سچ کر دکھایا خواب ہم یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنے والوں کو بے شک یہی ہے صریح جانچنا اور اس کا بدلہ دیا ہم نے ایک بڑ اجانور ذبح کرنے کو۔‘‘
(سورۃ الصفٰت: ۱۰۳۔۱۰۷)
حضرت ابراہیمؑ کی تابعداری اور حضرت اسماعیلؑ کی فرمانبرداری بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور ایک مینڈھا قربان کر کے خواب پورا کر دیا۔ یہی وہ عظیم قربانی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایثار کا نمونہ بنا دیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 153 تا 155
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔