حضرت آدم علیہ السّلام
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13630
آدم کے لغوی معنی ہیں، ’’بھورا، مٹیالہ، گندمی، سب آدمیوں کا باپ، پہلا آدمی جس سے انسان کی نسل شروع ہوئی۔‘‘
آدم کی تخلیق سے پہلے کائنات میں موجود لاکھوں مخلوقات میں ممتاز ایک مخلوق ’’جن‘‘ موجود تھی۔ اس مخلوق نے جب زمین پر فساد برپا کر دیا تو اللہ نے ایک نئی مخلوق بنائی۔ اس مخلوق کا پہلا فرد آدم ہے۔
’’اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ہمارے رب! یہ شخص زمین پر فساد برپا کرے گا اور زمین پر ہر طرف خون پھیل جائے گا۔ اے پروردگار! ہم تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاک ذات کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۳۰)
’’اور ہم نے بنایا آدمی، کھنکھناتے سنے گارے سے۔‘‘
(سورۃ الحجر:۲۶)
’’بنایا آدمی کھنکھناتی مٹی سے جیسےٹھیکرا۔‘‘
(سورہ الرحمٰن:۱۴)
آدم کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔
۱) تخلیق کیا مٹی سے۔
۲) تخلیق ہوئی چپکتے گارے سے۔
۳) تخلیق کیا گیا سنے گارے سے۔
۴) تخلیق کیا کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔
۵) گوندھی ہوئی مٹی سے۔
۶) اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔
(کتاب پیدائش باب: ۲۔۷)
اللہ تعالیٰ نے آدم کو کائناتی رموز سکھا کر فرشتوں سے پوچھا۔۔۔۔۔۔اگر تم اس علم سے واقف ہو تو بیان کرو۔ فرشتوں نے کہا کہ
ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔
آدم نے علوم بیان کئے تو فرشتوں نے یہ جان لیا کہ اللہ نے آدم کو جو علوم سکھا دیئے ہیں وہ ہمیں معلوم نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔آدم کو سجدہ کرو۔ یعنی آدم کی حاکمیت تسلیم کرو لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا اور اس نے تکبر کیا۔
فرشتے فطرتاً مطیع اور فرماں بردار ہیں۔ جبکہ جنات بااختیار مخلوق ہے۔ انسان کی تخلیق سے پہلے یہی بااختیار مخلوق زمین پر آباد تھی۔
ان میں سے ایک فرد عزازیل کو علمی برتری حاصل تھی اور برتری کے احساس نے اسے تکبر میں مبتلا کر دیا تھا۔ ’’ابلیس‘‘ بلس اور ابلاس سے مشتق ہے جس کے معنی ’’رنج و غم، دل شکستہ ہو جانا، مایوسی اور نامراد ہو جانے کی وجہ سے برا فروختہ (Desperate) ہو جانا۔‘‘ ابلیس سے جب حکم عدولی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا!
’’آپ نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا:
’’اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت کی لامحدود کھلی فضا میں رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔‘‘
شیطان نے اس ہی پابندی کو مقصد برآری کے لئے استعمال کیا۔ اس نے انہیں باور کرایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اگر تم اس درخت کے قریب نہ گئے تو جنت میں نہیں رہ سکو گے اور آدم سے سہو ہو گیا۔
انجیل برنا باس کے مطابق حضرت آدم ؑ کی پیدائش جب عمل میں آئی تو سب سے پہلے نظر جس تحریر پر پڑی اس کی عبارت یہ تھی۔
’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
’’پس جب آدم اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو اس نے آسمانوں میں ایک تحریر چمکتی دیکھی جس کی عبارت تھی ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ تب آدم نے اپنا منہ کھولا اور کہا! ’’میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اے میرے پروردگار کیونکہ تو نے مہربانی کی۔ پس مجھے پیدا کیا لیکن میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو مجھے خبر دے کہ ان کلمات کے کیا معنی ہیں۔‘‘ تب اللہ نے جواب دیا۔ مرحبا ہے تجھ کو اے میرے بندے آدم اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پہلا انسان ہے جس کو میں نے پیدا کیا اور یہ شخص جس کو تو نے دیکھا ہے تیرا ہی بیٹا ہے کہ جو اس وقت کے بہت سے سالوں کے بعد دنیا میں آئے گا اور میرا رسول ہو گا کہ اس کے لئے میں نے سب چیزوں کو پیدا کیا۔
وہ رسول اللہﷺ جب دنیا میں آئے گا دنیا کو ایک روشنی بخشے گا۔ یہ وہ نبی ہے کہ اس کی روح آسمانی روشنی میں ساٹھ(۶۰) ہزار سال قبل اس کے لئے رکھی گئی ہے کہ میں کسی چیز کو پیدا کروں۔‘‘
(برناباس باب: ۳۹۔آیات: ۱۴۔۱۸)
قرآن کریم نے حضرت انسان سے متعلق مثبت اور منفی ہر پہلو کو واضح کر کے انسان کی عظمت کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان کی تخلیق ’’احسن تقویم‘‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پوری کائنات میں تکریم و تعظیم کا مستحق ہے اور احسن تقویم ہونے کی وجہ سے امانت الٰہی کا علم بردار ہے۔ امانت الٰہی حاصل ہونے کے بعد ’’خلیفتہ اللہ‘‘ کے منصب پر فائز ہے۔ انسان کی پیدائش بے مقصد اور بے نتیجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور، بصیرت و دانائی اور فہم و فراست دے کر کائنات میں ممتاز بنا دیا ہے۔ اور یہی وہ امتیاز ہے جس کی بناء پر وہ برائیوں سے اجتناب اور بھلائی کے اختیار کا مکلف ہے۔
’’انسان کو پیدا کیا اور پھر راہ دکھلائی۔‘‘
’’اور پھر ہم نے انسان کو دونوں راستے دکھلائے۔‘‘ (سورۃ البلد: ۴۔۱۰)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 29 تا 31
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔