حضرت آدم ؑ کے قصے میں حکمت
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13650
حضرت آدم ؑ کے قصے میں بے شمار حکمتیں موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
* حضرت آدم ؑ اور ان کی اولاد کا شرف اس علم اور ان صفات کی بناء پر ہے جو اللہ نے مٹی کے پتلے میں اپنی روح پھونکنے کے بعد اسے عطا کر دی ہیں۔
* انسان اگر اپنی حقیقت (روح) سے واقف ہے اور ان قاعدوں، ضابطوں اور فارمولوں سے واقف ہے جو کائنات کے پس پردہ کام کر رہے ہیں تو وہ مخلوق میں افضل ہے۔ بصورت دیگر اس کی حیثیت مٹی کے پتلے کی ہے جس کے اندر اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے۔
* سہواً غلطی کرنے کے باوجود آدم ؑ نے عاجزی کا مظاہرہ کیا جسے اللہ نے پسند فرمایا اور معاف فرما دیا یعنی اللہ کو آدم کی عجز و انکساری پسند آئی۔ یہ عجز و انکساری کا ہی نتیجہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی اولاد میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے۔
* عجز کے مقابلے میں گستاخی یا بغاوت بڑی سے بڑی نیکی اور بھلائی کو کھا جاتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کبر و نخوت اور گستاخی نے عزازیل کو راندہ درگاہ کر دیا۔
تکبر عزازیل راخوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد
* اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ عزت و شرف اور لعنت و رسوائی اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
* آدم کی تخلیق قدرت کا ایک منفرد کرشمہ ہے۔ مٹی کے پتلے کو گوشت پوست کی صورت دے دی۔ مٹی کو گوشت پوست، ہڈی، خون، دل، پھیپھڑے، دماغ میں تبدیل کر دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ اگر انسان اپنی مادی تخلیق پر غور کرے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ سارا جسمانی نظام بغیر کسی مادی کنکشن کے متحرک ہے اور کسی لمحے بھی یہ حرکت ساقط نہیں ہوتی اور اگر کسی وجہ سے اس نظام میں خلل واقع ہو جائے تو جدید ترین آلات کا نظام بھی جسم کے کل پرزوں کو اس طرح متحرک نہیں رکھ سکتا جس طرح قدرت حرکت میں رکھتی ہے۔ مثلاً ہمارے سارے جسم میں خون پہنچانے کے لئے ایک آلہ ہے جو ایک منٹ میں ستر بہتر بار سکڑتا اور پھیلتا ہے اور دل کی یہ خدمت ساری عمر جاری رہتی ہے اور کارکردگی میں اگر فرق آ جائے تو علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
گردن سے رانوں کے اوپر تک کا ہمارا جسم ایک صندوق کی طرح ہے۔ اس صندوق کی دیواروں کے درمیان(پسلیوں کے نیچے) پھیپھڑے ہیں۔ سانس کے اندر جانے اور باہر نکلنے کا دارومدار پھیپھڑوں کے سکڑنے اور پھیلنے پر ہے۔ آدمی ایک منٹ میں سولہ(۱۶) یا سترہ(۱۷) بار سانس لیتا ہے اور نکالتا ہے۔ انسان سانس اسی وقت لے سکتا ہے جب خلاء میں ہوا اور آکسیجن موجود ہو۔
* انسان کی بنیادی ضرورت میں پانی کو بڑا دخل ہے پانی نہ ہو تو ساری زمین بنجر ہو جائے گی۔ اللہ نے انسان کو اپنی طرف سے ہر چیز مفت عطا کی ہے، نہ کوئی فیس اور نہ کوئی بل آتا ہے۔
جن اسماء الٰہی کا علم آدم ؑ کو دیا گیا تھا۔ ان ہی اسماء کا علم، نیابت کی ودیعت ہے۔ ان ہی اسماء کے علم کو روحانیت کی زبان میں ’’علم لدنی‘‘ کہتے ہیں۔
وعلم آدم الاسماء کلھا
جب اللہ تعالیٰ نے علم کی تقسیم کی تو سب سے پہلے اپنی صفات کے ناموں کا تعارف کرایا۔ ان ہی ناموں کو اسمائے صفاتی کہا جاتا ہے۔
یہی نام وہ علم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہیں۔ صفت کی تعریف کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفات بھی جمع ہیں۔
مثلاً ربانیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت بھی شریک ہیں۔ یا صمدیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت شامل ہیں۔ اسی طرح احدیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفت کا ہونا ضروری ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت قدرت اور رحمت کے بغیر نہیں ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو بصیر کہتے ہیں تو اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بصیر ہونے کی صفت میں قادر اور رحیم بھی ہے یعنی اسے بصیر ہونے میں کامل قدرت اور کامل خالقیت کی استطاعت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم دراصل ایک تجلی ہے۔ یہ تجلی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت کی حامل ہے۔ اور اس تجلی کے ساتھ صفت قدرت کی تجلی اور صفت رحمت کی تجلی بھی شامل ہے۔ اس طرح ہر صفت کی تجلی کے ساتھ دو تجلیاں اور ہیں۔ گویا ہر اسم تین تجلیوں کا مجموعہ ہے۔
۱۔ ایک تجلی صفت اسم کی۔
۲۔ دوسری تجلی صفت قدرت کی۔
۳۔ تیسری تجلی صفت رحمت کی۔
چنانچہ کسی تجلی کے نام کو اسم کہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر اسم مجموعی حیثیت میں دو صفات پر مشتمل ہے۔ ایک خود تجلی اور ایک تجلی کی صفت۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم ذہن میں پڑھتے ہیں یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو ایک تجلی اپنی صفت کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔ اس حرکت کو ہم علم کہتے ہیں۔ جو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہے۔
عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ موجودات کے تمام اجسام اور افراد میں ایک مخفی رشتہ ہے۔ اس رشتہ کی تلاش سوائے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل علم اور اہل فن نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اسی رشتے پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کے تعارف کا باعث ہے۔
ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشریٰ کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارے کا بشریٰ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ اگر کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ یہی مخفی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔
یہاں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ اگر کائنات کے مختلف اجسام، مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے کی روشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا ہرگز پسند نہ کرتی۔ قرآن پاک نے اسی مالک ہستی کا تعارف لفظ ’’اللہ‘‘ سے کرایا ہے۔ اسمائے مقدسہ میں یہی لفظ ’’اللہ‘‘ اسم ذات ہے۔
اسم ذات مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے اور اسم صفات قادرانہ صفت رکھتا ہے۔ اسم ذات مالکانہ یعنی خالقیت کے حقوق کا حامل ہے۔ اس کو تصوف کی زبان میں ’’رحمت‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ ہر صفت کے ساتھ اللہ کا قادرانہ اور رحیمانہ وصف لازم آتا ہے۔ یہی دو اوصاف ہیں جو موجودات کے تمام افراد کے درمیان مخفی رشتے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسمائے الٰہیہ کا یہ ہی وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو سکھایا ہے۔
(لوح و قلم)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے! ’’میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ایسے خالق ہیں جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جن خدوخال میں موجود ہے جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکم دیتے ہیں اور اس حکم کی تعمیل کے لئے تخلیق کے لئے جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر اس تخلیق کو عمل میں لے آتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 45 تا 49
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔