حادثے کیوں پیش آتے ہیں؟
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18761
دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو فریکوئنسی کے نظام میں مقداروں کی بے اعتدالی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کائنات ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہے ہر فرد کی اپنی اپنی ڈیوٹی ہے کہ اس نظام کو صحیح طریقے سے چلائے، سورج کی اپنی ڈیوٹی ہے چاند کی اپنی ڈیوٹی ہے، ہوا کی اپنی ڈیوٹی ہے، بہتے سمندر اور سبک خرام دریاؤں کی اپنی ڈیوٹی ہے۔
’’ان لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے، ہم نے اسے زندگی بخشی اور غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں، ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے تا کہ یہ اس کے پھل کھائیں یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے، پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ان کے لئے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں اور ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے اور چاند اس کیلئے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے، نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے، سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ان کیلئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا اور پھر ان کے لئے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں، ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں کوئی بھی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں بس ہماری رحمت ہی ہے جوان کو پار لگاتی ہے اور وقت خاص تک زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتی ہے۔‘‘
(سورۃ یٰسین: ۳۳۔۴۴)
جب زمین پر بے انصافی، حق تلفی، حسد، لالچ اور اللہ تعالیٰ سے انحراف اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ سسٹم میں اعتدال قائم نہ رہے تو سسٹم ٹوٹ جاتا ہے اور سسٹم کو ختم کرنے کے لئے آندھیاں چلتی ہیں، طوفان آتے ہیں اور برف کی جگہ آگ اور آگ کے مقامات پر برف برستی ہے۔
قوموں کے عروج و زوال اور عذاب و ثواب میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون کارفرما ہے کہ قومیں جب تک قدرت کے بنائے ہوئے تخلیقی فارمولوں کے مطابق زندگی گزارتی ہیں، اپنے اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرتی ہیں، اپنے وطن اور اپنی زمین سے محبت کرتی ہیں، اللہ کا بنایا ہوا سسٹم بھرپور طریقے سے ان کی مدد کرتا ہے اور جب کوئی قوم قوانین الٰہی سے انحراف کرتی ہے اور قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرتی ہے تو قدرت اس کو سسٹم سے باہر پھینک دیتی ہے۔
زمین اور قدرت کا بنایا ہوا سسٹم تو محفوظ رہتا ہے لیکن آدم زاد ہلاکت کے گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتا ہے، تاریخی شواہد سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہر دس ہزار سال کے بعد آدم زاد اور اس سے وابستہ دوسری نوعیں سسٹم میں دخل اندازی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہیں، پھر غاروں اور پتھروں کے دور سے از سر نو زندگی شروع ہوتی ہے اور دس ہزار سال کے بعد انسان ترقی کے نام پر وہی کچھ کرتا ہے جو اس کے آباد اجداد کر چکے ہیں، انسان کی تباہی کے دو بڑے عوامل ہیں۔
۱۔ شرک (دولت پرستی بھی شرک ہے)۔
۲۔ قدرت کے ان کاموں میں دخل اندازی جو قدرت نے اپنے لئے محفوظ کر لئے ہیں۔
آج کے دور میں دولت کے نام پر ترقی ’’دولت پرستی‘‘ ہے مادی استحکام کے لئے انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں ہر فنا ہو جانے والی چیز پر ’’بھروسہ‘‘ کر لیا گیا ہے، عارضی آسائش و آرام اور زر پرستی زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔
کلوننگ اور اس قبیل کے دوسرے امور براہ راست قدرت کے کاموں میں دخل اندازی ہے جو قدرت کے قائم کردہ سسٹم کو توڑنے کے مترادف ہے، ہوس ملک گیری بھی دولت پرستی کے ضمن میں آتی ہے، دہشت گردی کر کے دوسروں کو مرعوب کرنا اور ان کے اوپر تسلط جما لینا مساوات کے خلاف بغاوت ہے، دنیا کی ہلاکت ہے۔ تاریخ کے آئینہ میں یہ نظر آتا ہے کہ اقوام نے توحید سے انکار کر کے زر و جواہرات کو اہمیت دی ہے۔ خود ساختہ بتوں کی پرستش کی، لوگوں کو ہلاک کر ڈالا یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے وہ یہاں سے چلا جاتا ہے کوئی ایک چیز اس کے ساتھ نہیں جاتی۔ ہر آدمی دنیا سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، دولت جمع کرنا محبوب مشغلہ بن گیا ہے اور آخرت کی زندگی سے اعتبار سے اٹھ گیا ہے۔
نبیوں سے اختلاف اور ان کی تعلیمات سے انکار قدرت سے انحراف ہے۔ آدمی جب قدرت سے تعلق توڑ کر عارضی دنیا سے رشتہ جوڑ لیتا ہے تو قدرت کا قانون اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
* خود غرضی عام ہو گئی ہے واعظوں نے اللہ کی آیتوں کو کاروبار بنا لیا ہے۔
* ہر آدمی ناصح بن گیا ہے کسی کو اپنی فکر نہیں۔
* کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ سے معاشرہ زہر ناک بن گیا ہے۔
* ترقی کے فسوں میں ہر زندہ آدمی بیمار بن کر ہانپ رہا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 125 تا 127
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔