جنت میں حوض کوثر کی حقیقت
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17867
مدتوں بعد اب مجھے پھر چار دن سے تعلیم دی جار ہی ہے۔ اب کی دفعہ کافی سخت طبعیت خراب ہے۔ عجیب کیفیت ہے۔ سارا دن گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔ جب ہی یہ تمام باتیں ظہور میں آتی ہیں۔ بچے سکول میں چلے جاتے ہیں۔ ویسے اب کی دفعہ یہ سلسلہ بہت شدید ہے۔ مجھے حکم ملا کہ ہر وقت باوضو رہوں۔ کل اچانک ہی سلائی کرتے کرتے میری حالت عجیب ہو گئی، میں ایک دم کھڑی ہو گئی۔ آسمان اور زمین کے اطراف میں جدھر دیکھتی ہوں، ایسا لگتا تھا کہ میں اللہ میاں کے سامنے کھڑی ہوں۔ اسی وقت آواز آئی، میں تمہارا رب ہوں اور تم ہمیں کائنات کے ذرے ذرے میں دیکھ رہی ہو۔ میں نے اس وقت شکر کے تین سجدے کیے۔ مجھے بڑی بڑی چیزیں دکھائی گئیں اور بہت علم دیا جارہا ہے۔ مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔
اے مخاطب کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی کرسی کے جنوب میں ایک دریا ہے اور یہ اللہ کی پاکی کا دریا ہے ، یہ نور کا سیلِ رواں ہے اور اے مخاطب اگر تم ہزار برس بھی اس دریا میں برق رفتاری سے چلتے رہو تب بھی تم اس کی لمبائی نہ ناپ سکو گے اور گہرائی میں آسمان اور زمین کی گہرائی سے بھی کئی گنا زیادہ ہے اور اے مخاطب آس پاس چکر کاٹتے رہو تو تب بھی اس کا حجم نہ معلوم کر سکو گے۔ یہ تمام آسمانوں کے درختوں میں بڑا اور سب سے اونچا درخت ہے۔ تم اس کا اندازہ ہر گز نہیں کر سکتے اور اس درخت میں صرف ایک ہی انار۔۔۔ہاں سال میں صرف ایک ہی انار درخت کے بیچوں بیچ لگتا ہے۔ اگر تم دس ہزار چکر بھی اس جھاڑی کے لگاؤ تب بھی یہ انار تم کو نظر نہیں آئے گا، مگر جب کوئی خوش نصیب انسان آگ کے دس ہزار دریا پار کر کےاس مقام پر پہنچ جاتا ہےتو اللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھ سے اس خوش نصیب انسان کو وہ انار دے دیتے ہیں۔
اے مخاطب یہ ہے انسان کی داستانِ ہستی جو صرف اور پیغمبروں اور ولیوں کو بتائی گئی۔ تمہارے ذمے اللہ نے چند کام سونپے ہیں اور غور سے سنو کہ ہر انسان کے ذمےکچھ کام کر دئیے گئے ہیں اور کسی انسان کی تخلیق بلا سوچے سمجھے ہر گز ہر گز ،ہر گز بھی نہیں کی گئی، پھر تم نادانی سے ایسا کیوں سوچتے ہو اور یاد کرو وہ دن جب آدھی رات کو تمہاری ماں اُٹھ اُٹھ کر رو رو کر گڑ گڑا کر دعائیں مانگتی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کا ایسا بنا دے کہ رہتی دنیا تک نام روشن رہے اور کیا ہم نے تم کو وہ تمام کچھ نہیں دے دیا جو وہ مانگا کرتی تھی، کہو یہی سچ ہے۔ پھر ایک بار غور سے سن لو قیامت بہت قریب ہے۔
جنت میں ایک بہت بڑا حوض ہے، یہ دراصل ایک نہر ہے دو پہاڑوں کے درمیان سے نکلتی ہے۔ یہ نہر بہتی ہوئی ایک حوض میں گرتی ہے۔ یہ حوض بہت ہی بڑا ہے، اس کا نام حوضِ کوثر ہے۔ یہ حوض اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو دیا ہے۔ قیامت کے دن جب حساب کتاب ہوگا تو سخت گرمی سے گنہگاروں کی زبانیں باہر نکلی ہوئی ہوں گی اور پیاس کے مارے بُرا حال ہو گا، تب فرشتے جنت کی صراحیوں میں آب کوثر بھر کر لائیں گے اور اللہ کے حکم سے حضور ﷺ کے کہنے پر لوگوں کو پلائیں گے، جس سے ان کو ٹھنڈک لگے گی۔ جیسے کہ میں پہلے لکھ چکی ہوں، عالم برزخ میں ارواح کو جسم عنایت ہو ں گے۔ قیامت کے دن وہ انہی جسموں کے ساتھ عالم برزخ سے زندہ ہو کر نکلیں گے، جب سے دنیا عمل میں آئی ہے کچھ فرشتے اللہ کے حکم سے اس کام پر مامور ہیں کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کے جسم کے اعضا جمع کرتے ہیں، اب یہ اعضا کس شکل میں ہوتےہیں خاکی یا نوری ، میں نہیں جانتی مگر صرف اتنا جانتی ہوں کہ ہر جسم کے کچھ حصّے جمع کیے جار ہے ہیں اور انہیں فرشتے عالم برزخ میں رکھتے جا رہے ہیں۔ ہر جسم کے ساتھ ایک چھوٹی سی کتاب ہے، اس کتاب میں اس شخص کا نام اور تمام نشان وغیرہ درج ہیں۔ یہ تمام جسم بالکل ساکت ہیں، یہ بالکل بیکار سی چیز لگ رہی ہے۔ اب جب قیامت کا دن آئے گا تو ایک دن چالیس برس کے برابر ہوگا۔ اس کے بعد چالیس برس تک تمام لوگوں کو مکمل موت ہو گی پھر یہ تمام ارواح چالیس برس تک عالم برزخ میں رہیں گی جہاں پر اللہ تعالیٰ بمعہ اپنے فرشتوں کے ان تمام ارواح کو جسم عنایت کریں گے۔ وہ تمام جسم انہی اجزا کے ہوں گے جو فرشتوں نے جمع کیے ہوں گے۔ دنیاوی اجزا سے ملتے جلتے حتیٰ کہ خدو خال بھی وہی ہوں گے جو دنیا میں تھے۔ البتہ عمر جسم کے تناسب اور رنگت میں نمایاں فرق ہو گا۔ جب چالیس برس میں تمام لوگوں کو جسم دے دئیے جائیں گے تو پھر حشر کا دن طلوع ہو گا یعنی حساب کتاب کا دن، رزلٹ سننے کا دن، اس وقت پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، صور کی آواز سنتے ہی تمام لوگ آنکھیں ملتے ہوئےاُٹھ کھڑے ہوں گے اور حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے مگر حیرانی کیوجہ سے گم سم ہوں گے پھر خدا کے حکم سے زمین دو ٹکڑے ہو جائے گی اور فرشتے ارواح کو حکم دیں گے کہ اب باہر آ جاؤ، اس طرح نہایت ہی تنظیم کے ساتھ سب لوگ باہر آئیں گے اور قطاروں میں ادب سے کھڑے ہو ں گے پھر آس پاس سمٹنا شروع ہو جائے گا۔ اور ایک چادر سی لپیٹ دی جائے گی۔ مگر جیسے ہی گنہگار لوگ آسمان کی طرف نظر کریں گے وہ بالکل اندھے ہو جائیں گے اور رنگت تو پہلے ہی ان کی سیاہ ہو گی اور وہ سخت خوفزدہ ہوں گے یہاں تک کہ خوف سے بُری طرح کانپتے ہو ں گے اور مارے دہشت کے گردن کو ہلاتے ہوں گے مگر اچھے اور نیک لوگ یہ تمام نظارہ کریں گےپھر آسمان سے عرشِ عظیم اترے گا ۔ اس کو آٹھ فرشتے لے کر آئیں گے۔ یہ فرشتے سب فرشتوں کے سردار ہو ں گے۔
زمین پر جو رزق پہنچانے پر مامور ہیں ان کےسردار
زمین پر جو بارش برسانے پر مامور ہیں ان کے سردار
زمین پر جو رحمت کے فرشتے ہیں ان کےسردار
زمین پر جو موت کے فرشتے ہیں ان کے سردار
غرض زمین پر جتنے کام ہیں ان کے صرف سردار ہوں گےجیسے عزرائیل ؑ، جبرائیل ؑ، اسرافیلؑ وغیرہ
اس عرش پر بڑی سی کرسی ہوگی جیسے ہی اللہ کی ذرہ سی جھلک نظر آئے گی تمام لوگ اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں گر پڑیں گے مگر گنہگار لوگ چونکہ اندھے ہوں گے وہ سجدہ نہ کرسکیں گے ، وہ بہت زیادہ گھبرائیں گے، پریشان ہوں گے اور وہ اپنی آنکھیں نوچتے ہوں گے، پھر حضرت جبرائیل ؑ اللہ کے حکم سے بلائے جائیں گے اور کرسی کی داہنی طرف ذرا ایک طرف ہو کر ادب سے کھڑے ہو جائیں گے اور تمام فرشتےجو بھی زمین کے کاموں پر مامور ہیں تمام کے تمام اللہ تعالیٰ کی پشت کے پیچھے ہوں گے پھر آنحضرت ﷺ کو بلایا جائے گا اور وہ داہنی طرف بالکل کرسی کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے پھر تمام پیغمبروں کو بلایا جائے گا۔ تمام پیغمبران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑےہو ں گے، پھر اولیاء اللہ اور وہ لوگ جنہیں اللہ کی طرف سے سفار ش کی توفیق ہو گی بلائے جائیں گے اور وہ تمام لوگ بائیں ہاتھ پر کھڑےہوں گے ان سب لوگوں کو نام بنام اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل ؑ بلائیں گے اور جس طرح میں اپنے کسی پہلے خط میں لکھ چکی ہوں، حساب کتاب ہو گا، فی الحال یعنی اس وقت کسی کو سفارش کی اجازت نہیں ہوگی، جب سب کا حساب کتاب اور تول ہو جائے گا جو اللہ تعالیٰ بنفسِ نفیس خود کریں گےتو جنت میں جانے والےہیں وہ جنت میں چلے جائیں گے، فرشتے ان کو راستہ بتائیں گے، پھر جو سفارش والے ہوں گے اور گنہگار ہوں گے وہ الگ الگ کر دئیے جائیں گے اور پھر سفارش کی توفیق اور اجازت ہو گی، پھر اللہ جسے قبول کرے گا اس کو اس کی جگہ پر پہنچا دیا جائے گا۔ آنحضرت محمدِ مصطفیٰ ﷺ ساری دنیا کے انسانوں کی سفارش کریں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 131 تا 136
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔