جاودانی زندگی
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6243
عالمِ خیال سے اس پار عالمِ برزخ سے رُوح گزر کر جب بچّے کے روپ میں اپنا مظاہرہ کرتی ہے تواس بچّے کی پہلی استاد وہ ہے جو بچّے کو نہلا دھلا کر سفید جھاگ جیسے کپڑے میں ملفوف کرتی ہے۔ اس کے بعد استاد کے فرائض ماں سنبھال لیتی ہے۔ ماں کی مامتا بچّے کو سب سے پہلے صفائی کا تصوّر دیتی ہے۔ صفائی کے ایک لامتناہی عمل کے ساتھ ساتھ ماں بچّے کی شعوری سطح پر باپ کا تصوّر اُبھارتی ہے۔ یہ تصّور گہرا ہوتا ہے تو بچّے کے ننھے سے دماغ کے ننّھے ننّھے خلیوں میں دادا، دادی اور نانا، نانی کی تصویریں منعکس ہونے لگتی ہیں۔—– اور پھر ماں کے ساتھ باپ اور خاندان کے قریبی افراد مل جُل کر بچّے کے استاد کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ جس قسم کے اُستاد ہوتے ہیں وہی بچّے کی طرزِ فکر بن جاتی ہے۔ طرزِ فکر کی گہرائی بچّے کی شخصیت کا تعین کرتی ہے۔ افرادِ خاندان کبرو نخوت، احساس برتری کے کردار ہوتے ہیں تو بچّہ بھی ان کرداروں کا اثر قبول کرتا ہے۔ خاندان کے بڑے چھوٹے اخلاص، محبت اور ایثار کے پیکر ہوتے ہیں تو بچّے کے اندر میکانکی طور پر خلوص، محبت، اخوّت، حِلم اور بردباری کے جذبات اُبھرتے رہتے ہیں، طرزِ فکر کی بھٹی میں آدمی جل کر راکھ بن جاتا ہے اور طرزِ فکر کی بھٹی میں آدمی کُندن بھی بن جاتا ہے۔
میرا بچپن —– پوری ایک داستان ہے۔ فکشن داستان نہیں، حقیقی کرداروں کے ساتھ داستان۔ —– پیدا ہو تو ایک نہایت بلند شخصیت نے کھجور چبا کر منہ میں ڈالی۔ بڑا ہوا، مکتب میں بٹھا دیا گیا۔ قرآن پڑھنے والے اُستاد حسنِ جمال سے بے بہرہ تو تھے ہی حسنِ اخلاق بھی یہ تھا کہ کھال اور ہڈی ماں باپ کی، اور باقی سب کچھ حافظ جی کا۔ پٹتے گئے، مضروب ہڈیوں کے ساتھ قرآن پاک کے نورانی الفاظ جن میں معنی و مفہوم نہیں تھا دماغ کی سلیٹ پر نقش ہو گئے۔ پھر ایسا ماحول ملآجہاں ہر طرف دین کا چرچا تھا۔ لباس پر، وضع قطع پر بھی ایک مخصوص لبادہ تھا۔ گھر کا عالم یہ تھا کہ ماں بے چاری سہمی ہوئی، ڈری ہوئی ایک ہستی تھی۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ایک مشین تھی جو نہ معلوم کسی ایندھن کے زور پر چل رہی تھی۔ یہ مشین کبھی پتھر کے دو پاٹوں پر آٹا پیستی تھی، کبھی اوکھلی میں دھان ڈال کر ان کے اوپر موسل برساتی تھی۔ یہ مشین گھر میں اس طرح چلتی پھرتی تھی گویا اس کا کام ہی ہر وقت چلنا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہے۔ ماں کی مہربانی سے نوالہ تو سونے کا ملتا تھا مگر دیکھا شیر کی نظر سے جاتا تھا۔ —– شیر کی نظر کیا ہوتی ہے؟ شیر جب اپنی خونی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو آدمی کا سب کھایا پیا ختم ہو جاتا ہے اور برسوں کی جمع شدہ کیلوریز آنِ واحد میں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
ستّر سال، اسّی سال، نوّے سال کے بوڑھوں کے اندر یقین کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے جب کہا جاتا کہ تم جنّتی ہو تو انہیں کرنٹ سا لگ جاتا اور وہ التجا آمیز نظروں اور منّت پذیر لہجے سے کہتے کہ خدا کرے تمہارا کہا سچ ہو۔ انہیں اپنی عبادتوں اور ریاضتوں پر اتنا بھی یقین نیہں تھآجتنا عام آدمی کوعام آدمی پر ہوتا ہے۔
بے یقینی کے اس ماحول میں پرورش پا کر میں شعور کی اس منزل پر پہنچآجہاں آدمی اپنے لیئے کچھ فیصلے کرتا ہے۔ اس کی سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ ماضی ہی سب کچھ نہیں، مستقبل بھی ایک ضرورت ہے۔ بے یقینی کے اس دَور سے نکل کر یقین کے راستوں کی تلاش ہوئی۔ ذہن میں خیال وارد ہوا کہ یقین وہاں ملے گآجہاں خوف نہیں ہوگا۔ یقین کی دولت وہاں سے ملے گی جہاں غم نہیں ہوگا۔ —– قصّہ مختصر خوف اور غم سے نجات یافتہ گروہ کی تلاش میں برسوں بیت گئے۔ پرکھ کا ایک ہی زوایہ سامنے تھا کہ اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔ سترہ سال کی عمر سے چھبیس سال تک اللہ کے ایسے دوست کی تلاش میں سرگرداں رہآجس کو اللہ کے ارشاد کے مطابق غم اور خوف نہ ہو۔ کرامات دیکھیں، کشفِ حال اور کشف قبر کے قصّے سنے۔ ایسے حضرات سے وابستگی ہوئی کہ ان کے ایک اشارے سے رُوحیں آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ ایسے قدسی نفس لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کے ایک ایک لمحے پر شریعت مطہّرہ کی چھاپ تھی۔ مگر ایسے بندے تک رسائی نہیں ہوئی جس کے اندر خوف اور غم نہ ہو۔ جب دل گداز سے معمور ہو گیا، آنکھیں آنسوؤں سے لبریز رہنے لگیں، دماغ یکسوئی کی طرف مائل ہوتا چلا گیا تو اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔
“اور وہ لوگ جو اللہ کے لیئے جہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے راستوں کی ہدایت بخشتا ہے۔”
خوشا نصیب ! ایک مردِ آزاد ملا، ایسا آزاد بندہ کہ اس کے اوپر غم اور خوف کے بادل کبھی سایہ نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو غمگین اور خوف زدہ رہتے ہیں جب ایسے بندے کی مجلس میں جا بیٹھتے ہیں تو ان کے اوپر سکون و راحت، مسرّت اور خوشی کی بارش برسنے لگتی ہے۔
یہ آزاد مرد —–
قلندر بابا اولیاءؒ ہیں، قدرت نے جن کو پیار و محبت سے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے۔ اس آزاد مرد نے طرزِ فکر کی بھٹی میں ڈال کر وہ تمام بت پاش پاش کر دیے جو ماحول سے ورثہ میں ملے تھے —– بے یقینی کا بُت، بھوک افلاس سے خوف کا بُت، موت کے ڈر کا بُت، عزت و بے عزتی کا بُت۔ —– اندر (INNER) میں بسنے والی طلسماتی دنیا زیر و زبر کر دی گئی اور یقین کا ایک ایسا پیٹرن بنا دیا گیآجہاں نظر اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتی، دل اللہ کے سوا کسی اور کو محسوس نہیں کرتا، جہاں علمِ بے عمل جہالت ہے اور جہاں بے یقینی شرک ہے اور یقین جاودانی زندگی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 197 تا 200
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔