تین دوست
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6234
لُو کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیئے کھڑکیوں اور دروازوں پر دبیز پردے ڈال کر کمرے میں اندھیرا کیا تو سکون ملا۔ اور جب اس اندھیرے میں پنکھے کے پروں کو ارتعاش ملا تو ٹھنڈک کا احساس ہوا اور خمار کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کمرے میں ہم چار دوست موجود تھے۔ ایک صاحب صوفہ سے ٹیک لگائے نیم دراز تھے۔ دوسرے صاحب گوتم بُدھ کی نشست میں کمر سیدھی کئے ہوئے نہ جانے خلا کے اس پار کہا ں گم تھے۔ تیسرے صاحب کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے اور کمرے میں موجود چوتھے صاحب کی ہیٔبت کذائی یہ تھی کہ جسم پر سوائے لُنگی کے کچھ نہ تھا۔ سماں ایسا تھا کہ جیسے کمرے کا ماحول ایک نقطے پر ٹھہر گیا ہو۔ گو کہ چاروں حضرات نشست اور سوچ کے اعتبار سے الگ الگ اپنے اپنے خیالوں میں مگن تھے مگر سب میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ مشترک چیز یہ تھی کہ ان کی آنکھوں میں تفکّر کے دیئے جَل بُجھ رہے تھے۔ چاروں میں سے ایک نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ۔
دوستو! دوست کی تعریف کیا ہے اور سب سے بہتر دوست کون ہے؟ وہ صاحب جو گوتم بُدھ کی نشست میں خلا میں گھور رہے تھے، اس سوال سے چو نک پڑے اور انہوں نے کہا “سب سے بہترین دوست انسان کا اپنامن ہے”۔ جس نے من کو سمجھ لیا اور من کے اندر اپنی مورتی کو دیکھ لیا، وہ دوست سے واقف ہو گیا یعنی وہ خود اپنا دوست بن گیا۔”
تیسرے صاحب نے جو مطالعہ میں مصروف تھے، کتاب کے اوپر سے نظر ہٹا کر پوچھا۔ “کسی کے لیئے خود اپنا دوست بننا کیسی ممکن ہے؟”
صوفے پر بیٹھے ہوئے صاحب بھی اس گفتگو میں شریک ہو گئے اور یوں گویا ہوئے، “خود اپنا دوست بننا اس طرح ممکن ہے کہ آدمی اپنے من سے واقف ہو جائے۔ جب تک ہم زندگی کو محض جسمانی تقاضے پورا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں من اور رُوح سے دور رہتے ہیں۔ اور جب ہم جسمانی تقاضوں کی سطح سے بلند ہو کر سوچتے ہیں تو ہمارے اوپررُوح اور رُوح کے حقیقتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔”
موضوع اتنا گمبھیر تھا کہ نقش و نگارسے آراستہ اندھیرے اور ٹھنڈے کمرے میں موجود چاروں حضرات اپنی پوری علمی توانائیوں کے ساتھ اس مسئلے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سوال یہ اٹھا کہ من اور رُوح اور جسم میں کیا فرق ہے۔ اگر جسم نہ ہو تو رُوح کے تقاضے کیا معنی رکھتے ہیں۔ اور اگر رُوح نہ ہو تو جسم کی حیثیت صفر رہ جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ من اور رُوح کا رشتہ حقیقی رشتہ ہے اور جسم کا رشتہ فانی اور غیر حقیقی رشتہ ہے کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ہم پہلے جسم کو جانتے ہیں، پھر رُوح سے واقف ہوتے ہیں اور اور رُوح سے جس قدر واقف ہیں اس کی حیثیت محض علمی ہے، مشاہدتی نہیں ہے۔ جب کہ جسم کی حیثیت علمی بھی ہے اور مشاہداتی بھی۔
لُنگی پوش بہت دُور کی کوڑی لائے۔ ذرا بلند اور گرج دار آواز میں بولے۔ “جسمانی وجود کا انحصار رُوح پر ہے۔ رُوح کا انحصار جسمانی وجود پر نہیں ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ رُوح کے بغیر آدمی کی حیثیت ایک لاش کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب تک رُوح گوشت پوست کے وجود سے تعلق قائم رکھتی ہے، گوشت پوست کے وجود میں حرکت موجود رہتی ہے، یہ گوشت پوست کا وجود دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، چھوتا بھی ہے، بولتا بھی ہے، تپش اور ٹھندک کی لہروں کو محسوس بھی کرتا ہے لیکن اگر رُوح اس گوشت پوست کے وجود سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو یہ جسمانی وجود نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے، نہ محسوس کرتا ہے۔ رُوح کی موجودگی میں جسم کے کسی عضو پر سوئی کی نوک رکھ دی جائے تو آدمی چبھن محسوس کرتا ہے اور رُوح کی عدم موجودگی میں کیسی اور رُوح کی عدم موجودگی میں کسی بڑے دھاردار ہتھیار کی مدد سے جسم کا ایک ایک عضو کاٹ دیا جائے، الگ کر دیا جائے تو وجود کچھ بھی محسوس نہیں کرتا اور نہ اس کے اندر کوئی قوت مدافعت ہوتی ہے۔ زندگ کے اس عمل سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان کی اصل رُوح ہے، گوشت پوست کا وجود نہیں ہے۔ اگر کوئی بندہ اپنے من، اپنی رُوح سے واقف ہے تو وہ اپنا دوست ہے۔ اور اس کے برعکس اگر کوئی بندہ اپنے گوشت پوست کے وجود کو سب کچھ سمجھتا ہے تو وہ اپنا دشمن ہے۔ اگر کوئی بندہ من سے کوئی کثیف کام لینا چاہتا ہے تو من اس کی خدمت کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ وہ اُسے مادّیت اور ٹائم اسپیس کے جال میں جکڑ دیتا ہے اور اگر کوئی بندہ من سے رُوح کا سراغ چاہتا ہے تو من اُسے نہ صرف بتا دیتا ہے بلکہ دکھا بھی دیتا ہے کہ رُوح پاک ہے، جسم کثیف ہے۔ اس کے اُوپر یہ بات بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ جسم کی ساری خوشیاں جسم کی طرح عارضی ہیں اور رُوح چوں کہ خود مستقل خوشی ہے، اس لئیے رُوحانی لوگ خوش رہتے ہیں۔ خوف اور غم کے سائے ان سے دور بھاگ جاتے ہیں۔ یہ مادّی دنیا اور گوشت پوست کے جسم کی دُنیا دوئی کی دنیا ہے۔ ابھی ہم سکھی ہیں اور ابھی ہم دکھی ہیں۔ جو بات ہمارے لیئے عزّت کا باعث ہے وہی بات لمحہ بھر بعد ہمارے لیئے بے عزتی بن جاتی ہے۔ دوئی کی اس مادّی دنیا میں کسی چیز کو سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم سُکھ، دکھ، عزّت، بے عزّتی، سردی اور گرمی کے تضاد کو سمجھ لیں۔ جب تک مجھے یہ علم نہیں کہ ذلّت کیا ہے، عزّت کا مفہوم میرے ذہن میں نہیں آتا۔ جب تک میں مصیبت کی چکّی کے دو پاٹوں میں نہیں پستا، میں خوشی کو نہیں سمجھتا۔ اس تضاد سے گزرنے کے لیئے مادّی دنیا کی اس دوئی سے گزر کر خود شناسی کے علم کا طالب بن جاتا ہے تو وہ ہر چیز کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے خواہ وہ کنکر ہوں، پتھر ہوں یا سونا ہو۔ اور جب تک کوئی بندہ خود شناسی کے علم سے نا واقف رہ جاتا ہے اس کا من بے چین اور بے قرار رہتا ہے۔ من کی بے چینی اور بے قراری دُور کرنے کے لیئے ایک مخصوص طرزِ فکر کو اپنانا ضروری ہے اور یہ طرزِ فکر آزاد طرز فکر ہے۔”
لُنگی پوش نے کہا یہ آزاد طرزِ فکر دراصل قلندر شعور ہے۔ من سے دوستی کا رشتہ مستحکم کرنے کے لیئے قلندر شعور ہمیں راستہ دکھاتا ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ یہاں ہمارا نہ کوئی دشمن ہے نہ کوئی دوست ہے۔ ہم خود ہی اپنے دوست ہیں، خود ہی اپنے دشمن ہیں۔ قلندر شعور جب حرکت میں آ جاتا ہے تو بندہ یہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات ایک اسٹیج ڈرامہ ہے۔ اس اسٹیج پر کوئی باپ ہے، کوئی ماں ہے، کوئی بچہ ہے، کوئی دوست ہے، کوئی دوشمن ہے، کوئی گناہ گار ہے، کوئی پاکباز ہے۔ دراصل یہ اسٹیج پر کام کرنے والے کرداروں کے مختلف رُوپ ہیں۔ جب ایک کردار یا سب کردار اسٹیج سے اتر جاتے ہیں تو سب ایک ہو جاتے ہیں اور ان کے اوپر سے دنیا کی دوئی کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 162 تا 166
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔