توانائی
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6201
برسوں کی تحقیق و جستجو کے بعد طبیعات نے انکشاف کیا ہے کہ کائنات میں جاری وساری قوتیں جن کی تعداد اب تھی چا ر سمجھی جاتی ہے صرف تین ہے۔ کم علمی کی بنا پرایک طاقت کو دو طرح شناخت کیا جا رہا تھا۔ اسی انکشاف پر پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔
یہ نظریہ بھی سامنے آتا ہے کہ علمی و تحقیقی ارتقا کے ساتھ آج سے پچیس، پچاس، یا سو سال کے بعد سائنس اس امر کی شہادت فراہم کرے گی کہ فی الواقع کائنات میں جاری و ساری طاقت صرف ایک ہے جس کو کم علمی کی بنا پرچار تین یا دو سمجھآجا رہا تھا۔
دوسری طرف سائنس دانوں نے فوٹوگرافی کا ایک ایسا طریقہ اور آلات وضع کئے ہیں جس کے ذریعے اتاری گئی تصویروں نے شہادت دی ہے کہ ہر ما دی وجود کے گرد رنگین روشنیوں کا ہالہ ہے اور اس ہالہ نور جسے AURA کا نام دیا گیا ہے، کا مطالعہ کر کے بظاہرپوشیدہ ذہنی و جسمانی کیفیات کا انکشاف کیا جا سکتاہے۔
تیسری طرف جدید نفسیات دریافت کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ جب ذہن انسانی کامل یکسوئی کے ساتھ کسی خیال میں مرکوز ہو جاتا ہے تو تحت الشعور اس خیال کو مادّی وجود کے ساتھ مظہر بنا دیتا ہے۔
ہر آدمی جانتا ہے کہ دیگر تمام معامالات کی طرح عملی پیش رفت اور انکشافات بھی آفاقی قوانین کے تابع ہیں۔ جو قوم ان قوانین کےمطابق جدوجہد کرتی ہے وہ کامران ہوتی ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ نے جب وسائل میں قید مادے کو اولیت دے کر آفاقی قوانین کو حرکت دی تو ان کے اوپر مادّی وسائل میں مخفی صلاحیتوں کا اور طا قتوں کا انکشاف ہوتا چلا گیا اور آج یہ قومیں محض اپنی علمی فضلیت کی وجہ سے برتری حاصل کر چکی ہیں۔
موجودہ سائنس تلاش و جستجو کے راستے پر چل کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پوری کائنات ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے۔ یہ انکشاف نیا نہیں ہے۔ ہمارے اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات کے تمام مظاہرکو ایک ہی توانائی کنٹرول کرتی ہے اور اس قوت کا براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط ہے۔ قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ .۔۔۔ اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔
ہم مادّی سائنس اور اپنے اسلاف کے علوم کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمارے اوپر حیرت کے باب کھل جاتے ہیں کہ آج سے تقریباً آٹھ صدی پہلے حضرت شاہ عبدالقادرجیلانیؒ ایک ایسے عظیم سائنسداں تھے جو فطرت کے قوانین کو جانتے تھے، جن کے وجود مسعود سے آفاقی قوانین کے رازہائے سربستہ کا انکشاف ہوا۔ حضرت شاہ عبدالقادرجہیلانیؒ نے جو فطرت کے قوانین کے استعمال کآجو طر یقہ بتا گئے ہیں اور انہوں نے ان قوانین کو سمجھنے کی جو راہ متعین کی ہے وہاں آج کی سائنس کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔
سائنسی علوم کی ترقی اور کا میابی کا ایک بڑا فیکٹر (FACTOR) بجلی یا الیکٹریسٹی (ELECTRICITY) ہے اور اب یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ہر موجود شئے میں برقی اور مقنا طیسی (ELECTROMAGNETIC) لہریں موجود ہیں۔ مختلف اشیاء میں یہ لہریں مختلف تناسب اور مقداروں میں کام کرتی ہیں جبکہ ان لہروں کوایک بنیادی قوت زندگی مہیا کرتی ہے۔ یہی لہریں ہیں جو زندگی اور زندگی کے تمام عوامل و حرکا ت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
شیخ محی الدین عبدالقادرجییلانیؒ نے بتاتا ہے کہ زمین اور آسمان کا وجود اُس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔ اگر نوع انسانی کا ذہن مادہ سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوز ہو جائے تو وہ یہ سمجھنے پر قادر ہو جائے گا کہ انسان کے اندر عظیم الشان ماوارئی صلاحیتیں ذخیرہ کر دی گئیں ہیں جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ ہے کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی اشیاء کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور لہروں کو حسبِ منشاء استعمال بھی کر سکتا ہے۔ پوری کائنات اس کے سامنےایک نقطہ یا دائرہ بن کر آجاتی ہے۔ اس مقام پر انسانی مادّی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔ وسائل اس کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں۔
ہم جب قرآن کی تعلیم اور رسولؐ اللہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیئے کہ قرآن کی حقیقی تعلیم اور مسلمانوں کے عمل میں بہت بڑا تضاد واقع ہو چاہے۔ قرآن جس راہ کا تعین کرتا ہے، مسلمان جس راہ پرچل رہا ہے یہ دونوں دو ایسی لکیریں ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں۔
اللہ نے انسان کو اپنا نائب بنایا ہے، اس کے اندر اپنی صفات کا علم پھونکا ہے، اس کو اپنی صورت پر تخلیق کیا ہے۔ نائب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اگرایک مملکت کا صدر اپنے اختیارات کو استعمال کرنے میں کاغذ قلم کا محتاج نہ ہو تو اس کا نائب اختیارات استعمال کرنے میں کاغذ قلم کا محتاج ہو۔
اللہ وسائل کی محتاجی کے بغیر حاکم ہے تو اس کا نائب بھی وسائل کا دستِ نگر نہیں ہوتا۔ جس طرح خدا نے”کن”کہہ کر کائنات کو وجود بخشا ہے خدا کا نائب بھی اپنے ذہن کو حرکت دے کر خدا کی تخلیق میں تصرف کر سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا نائب اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ کا ئنات میں موجود تمام مظاہرایک ہی ذا ت سے ہم رشتہ ہیں۔
مسلمان کے پاس ماورائی علوم کآجتنا بڑا سرمایہ موجود ہے وہ اسی مناسبت سے مفلوک الحال ہے۔ مسلمان کے اسلاف نے اس کے لیئے حاکمیت اور تسخیر کائنات کے بڑے بڑے خزانے ترکہ میں چھوڑے ہیں لیکن وہ بدنصیب قوم ہے جس نے ہیرے کو پتھر کہہ کر پھینک دیا ہے اور اس خزانے سے مستفیض ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیئے ہے کہ مصلحتوں کے پیش نظر مسلمان کو تفکر کی راہ سے دور ہٹا دیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایسی نہج آ گئی ہے جہاں اس کا ہرعمل کاروبار بن گیا ہے۔
کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ قرآن کائنات پر ہماری حاکمیت اور سرداری تسلیم کر رہا ہے۔ ہمارے اوپر حاکمیت اور سرداری کے دروازے کھول رہا ہے اور ہم قرآن کو محض برکت کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں سجا ئے رکھتے ہیں۔ جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس کی آیات تلاوت کر کے دنیاوی مصائب سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اس طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی کہ
قرآن میں تفکر اگر ہمارا شعار بن جائے اور اس تفکر کے نتیجے میں میدانِ عمل میں اتری آئیں تو ساری کائنات پر ہماری سرداری مسلم ہے۔
افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق اللہ نے ہمیں شمس و قمر، نجوم، ارض و سماوات سب پر حاکم بنا دیا ہے اور اس حاکمیت کو حاصل کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں دوسروں کے پس خوردہ نوالوں کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہماری زندگی محض دنیا کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری عبادتیں بھی دکھاوے اور دنیاوی برکتیں سمیٹنے کے لیئے مخصوص ہو گئی ہیں۔ ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں گر باطن میں بہتے ہوئے سمندر میں سے ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے۔ آسمانِ علم و آگاہی کے خورشید منفرد اور تسخیر کائنات کے فارمولوں کے ماہر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
’اے منافقو! کلام نبوّت سنو۔
آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کرنے والو!
حق کو مخلوق کے عوض بیچنےوالو!
باقی کو فانی کے بدلے کاروبار کرنے والو!
تمہارا بیوپار سراسر خسارے کا سودا ہے، تمہارا سرمایہ تمہیں بربادی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔ افسوس تم پر۔ تم اللہ کے غضب کا ہدف بن رہےہو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 49 تا 53
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔