بادشاہی
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2415
میں چا ہتا ہوں کہ آپ کو وہ گر بتا دوں جس سے اسفل آدمی اشرف المخلوقات بن کر اللہ تعالیٰ کی با دشاہی میں قدم رکھ دیتا ہے اوراس کی مداومت سے بالآخر وہ اللہ کی بادشاہی میں ایک رکن کی حیثیت اختیار کر یتا ہے۔
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیا کا م کرتے ہیں؟
اللہ بحیثیت خالق کے ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت کر رہا ہے۔ پیدا ئش سے موت تک کی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں، پیدائش کے بعد ایامِ رضاعت (بچپن) میں، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ وہ تمام ضروریات اور وسائل فراہم کرتے ہیں جن کی آدمی کو ضرورت ہو۔ ہوا ہو، سورج کی رو شنی ہو، چاند کی چا ندنی ہو یا زمین کے اندر وسائل پیدا کرنے کی صلاحیت ہو ایک مرکز اورایک قانون کے تحت آدمی کی خدمت گزاری ان کی ذمہ داری ہے۔ خدمت کا یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص نظام اور قانون کے تحت قائم و دائم ہے۔ ایسا قانون جو اللہ تعالیٰ نے خود بنایا ہے اور خود اس کو جاری رکھے ہو ئے ہیں۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جب ہم کسی سے قربت چاہتے ہیں تو اس کی عادات و اطوار اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر آپ کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ نمازی بن جاتے ہیں۔ کسی تاش کھیلنے والے سے دوستی قائم کرنا چاہتے ہیں تو تاش کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم شیطان سے قربت کے خوگر ہیں تو شیطان کے اوصاف پسند کرتے ہیں اور اگر ہم رحمان سے قربت چاہتے ہیں تو رحمان کی عادات و صفات اختیار کرتے ہیں ۔اور رحمان کی عادت یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہے۔
پس اگر آپ اللہ، اپنے خالق سے متعارف ہو کر اس کی قربت اختیار کر کے کائنات پر اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیجئے۔ بلاشبہ اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنے والے لوگ اللہ کے دوست ہیں اور دوست پر دوست کی نوازشات و اکرامات کی ہمیشہ با رش برستی ہے۔
ترجمہ: یہ بڑائی اللہ کی ہے، دیتا ہے جس کو چاہے، اور اللہ کافضل بڑا ہے
(القرآن)
آج تک نوع انسانی نے جو تہذیبی پیش رفت کی ہے اس کا ایک اہم پہلو تاریخ کے حوالے سے حال کی صورت گری اور مستقبل کی نشان دہی ہے۔ مروجہ تمام علوم کسی نہ کسی جہت سے انسان کے حال کو بہتر بنانے اور یقینی مستقبل کی ضمانت فراہم کرنے کی جدوجہد میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا علم سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تہذیبیں اسی زمین پر ظاہر ہوئیں اور پھر معدوم ہوگئیں کہ صرف آثار باقی رہ گئے۔ تباہ ہونے والی ان قوموں کا تذکرہ صرف زمانہ قبل از تاریخ پر کی جانے والی تحقیق میں نہیں ملتا بلکہ نوع انسانی کی مربوط و مسلسل تاریخ ایسی بے شمارمثالوں سے بھری پڑی ہے۔
جب ہم ان عوامل کا کھوج لگاتے ہیں جو ان قوموں کی مکمل تباہی میں کار فرما ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات کھل کر آ جاتی ہے کہ جن قوموں کا رشتہ دنیا سے مستحکم اور اپنی رُوح سے کمزور ہو گیا بالآخر ان کے اوپر حرص و طمع اور لالچ غالب آ گیا۔ ایسی قوموں کا مقصدِ زندگی صرف اور صرف دنیا کا حصول بن جاتا ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والےحرص و ہوس کی دوڑ میں پورا معاشرہ اس طرح گرفتارِ بلا ہو جاتا ہے کہ کوئی صورت باہر نکلنے کی باقی نہیں رہ جاتی۔ شرافت و نجابت، تقویٰ اور پاکیزگی کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ جس کے گھر میں مال و دولت کے انبار ہیں اور جس کے پاس آسائش و آرام کا ضروری اور غیر ضروری سامان موجود ہے وہ معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اس بات سےایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ سب عارضی اور مفروضہ ہے اور آخر کار سب کچھ چھوڑ دینے پر ہر شخص مجبور ہے۔ کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں جاتی اور جو چیز اس کے ساتھ جاتی ہے، جس سے وہ دوسری دنیا میں آرام و سکون حاصل کر سکتا ہے اس سے وہ تہی دامن جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے بندے کو جس کے پاس آخرت کے لیئے کوئی اثاثہ نہیں ہوتا مصائب و آلام اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔ رنج و ہیبت ناک شکلیں اختیار کر کے اس کو مردہ بدست زندہ بنا دیتے ہیں۔ جب یہ صورتِ حال انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتماعی ہو جاتی ہے تو قومیں تباہ و برباد کر دی جا تی ہیں یا پھر ان کے چہرے مسخ ہو جاتے ہیں۔
دنیا کی محبت ان کو بزدل بنا دیتی ہے۔ وہ موت جیسی حقیقی زندگی سے خوف زدہ رہنے لگتے ہیں۔ نفس پرستی، عیاشی، پراگندگی، فتنہ انگیزی، ظلم و ستم عام ہو جاتا ہے۔ دوسری قومیں طرح طرح کی سازشوں کے جال بچھا کر اور مال و زر کے لالچ میں مبتلا کر کے ان کم ہمت قوموں کے وجود کو ختم کر دیتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 24 تا 26
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔