ایجادات کا ذہن
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19522
انسان اس صفت سے آراستہ ہے کہ وہ ماورائی مخلوق کے ذہن کی لہریں وصول کر لیتا ہے۔ یہی لہریں ریسرچ کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہیں۔ تمام سائنسی علوم اور ریسرچ کہیں محفوظ ضرور ہیں جہاں یہ علم موجود ہے وہ روشنی کا عالم ہے اگر اس روشنی میں فکر انسانی داخل ہو جائے تو آدمی علوم کی حقیقت جان لیتا ہے اور نئی نئی ایجادات کر لیتا ہے ان علوم کو سیکھنے اور جاننے کے لئے ایک مدت درکار ہے کیونکہ عقل و شعور کی تربیت فکشن حواس میں ہوئی اگر کوئی نکتہ عقل میں نہ آئے تو آدمی اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے اس کے برخلاف روحانی آدمی اپنے مشاہدہ کی بنا پر اس کا فہم رکھتا ہے کہ کائنات ڈسپلے ہو رہی ہے، روحانی علوم جب عالم ناسوت میں اپنا مظاہرہ کرتے ہیں تو مادی حواس ان سے واقف ہو جاتے ہیں حواس کی تھیوری ہے کہ مظاہرات میں ارادہ کام کر رہا ہے فطری تخلیقات اور انسان کی ایجادات میں یہ فرق ہے کہ فطرت اسباب و وسائل کے بغیر تخلیق کرتی ہے اور انسان فطرت کے پیدا کردہ مسائل و اسباب استعمال کر کے کوئی ایجاد کرتا ہے۔ ماورائی علوم کی روشنیاں، روز اول سے فطرت میں موجود ہیں کوئی موجد ان ہی روشنیوں میں تفکر کر کے ایجاد کرتا ہے۔ علم حقیقی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کائنات اور کائنات میں لاشمار دنیائیں روشنیوں اور نور کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو معجزات عطا فرمائے تھے، ایک عصا اور دوسرا ید بیضا۔ عصا میں یہ وصف تھا کہ وہ اللہ کے رسول کے حکم سے ماہیت قلب کر لیتا تھا۔ فرعون کے دربار میں پھنکارتے ہوئے سانپ ہر طرف پھیل گئے اور زمین رینگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فرش پر اپنا عصا رکھ دیا دیکھتے ہی دیکھتے ’’عصا‘‘ ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا اور دربار میں بڑی بڑی تیز زبان نکالتے ہوئے شوں شوں کرتے سانپوں کو نگل گیا۔
کس طرح نگل گیا؟ ہماری دنیا عناصر کی دنیا ہے، عناصر میں چار عناصر بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دنیا میں ڈیڑھ سو سے زیادہ عناصر دریافت ہو چکے ہیں، لیکن یہ سارے عناصر چار عناصر کی مزید تحقیق ہیں۔ پانی، ہوا، آگ، خاک، عناصر سانپ اور عصا میں موجود ہیں یعنی لکڑی اور سانپ دونوں میں عناصر مشترک ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب زمین پر عصا رکھا تو ان کے ارادے کے تحت لکڑی میں سانپ میں کام کرنے والے عناصر متحرک ہو گئے اور عصا اژدھا بن گیا یہی قانون دریا میں عصا مارنے کے بعد راستہ بن جانے کا ہے، پانی، آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے، پانی کے بغیر درخت نہیں اگتے، لکڑی کتنی ہی خشک ہو جائے اس میں پانی کا عنصر کتنا ہی قلیل ہو موجود ضرور رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریا کی سطح پر عصا مارا تو مطلوبہ مقامات میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن فضا میں اڑ گئی اور جب بنی اسرائیل نے دریا پار کر لیا تو آکسیجن اور ہائیڈروجن دوبارہ خالی جگہ پر آ گئی اور پانی، پانی ہو گیا، آکسیجن اور ہائیڈروجن فضا میں کیسے اڑ گئی؟ ایسے اڑ گئی کہ لکڑی کے اندر آگ کا عنصر غالب آ گیا۔ لوہا آگ بنا کر پانی کے تشلے میں ڈبو دیا جائے تو پانی اڑ جاتا ہے۔ قدرت پر شک کرنے والے لوگ سوال کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ارادے میں اتنی قوت کیسے آ گئی کہ لاٹھی مارنے سے بنی اسرائیل کے لئے بارہ راستے بن گئے اس سلسلے میں قرآن پاک نوع انسانی کی رہنمائی کرتا ہے:
’’ہم نے انسان کو بجتی مٹی یعنی خلاء سے پیدا کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘
روح کے بارے میں قرآن وضاحت کرتا ہے:
’’اے پیغمبر حضرت محمدﷺ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپﷺ بتا دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور ہم نے اس کو قلیل علم سکھایا ہے۔‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل۔ ۸۵)
قرآن اس فارمولے کی مزید تشریح کرتا ہے:
’’جب اس کا امر چاہتا ہے کہ کسی چیز کو تخلیق کرے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور تخلیق ہو جاتی ہے۔‘‘
(سورٰ یٰسین۔ ۸۲)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 272 تا 274
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔