ایجادات

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6247

برائی یا بھلا ئی کآجہاں تک تعلق ہے کوئی عمل دنیا میں بُرا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمل میں معانی پہنانا اچھائی یا برائی ہے۔ معانی پہنانے سے مراد نیّت ہے عمل کرنے سے پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہوتا ہے وہی خیر یا شر ہے۔
آگ کا کام جلانا ہے۔ ایک آدمی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیئے آگ کو کھانا پکانے میں استعمال کرتا ہے تو یہ عمل خیر ہے۔ وہی آدمی اس آگ سے لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالتا ہے تو یہ برائی ہے۔
جن قوموں سے ہم مرعوب ہیں اور جن قوموں سے ہم دست نگر ہیں ان کی طرزِ فکر کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ سائنس کی ساری ترقی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصل کرے اور ساری نوعِ انسانی اس کی غلام بن جائے یا ایجادات سے اتنے مالی فوائد حاصل کئے جائیں کہ زمین پر ایک مخصوص قوم یا ایک مخصوص ملک مال دار ہو جائے اور نوعِ انسانی غریب اور مفلوک الحال بن جائے کیوں کہ اس ترقی میں اللہ کے ذہن کے مطابق نوعِ انسانی کی فلاح مضمرنہیں ہے۔ اس لیئے یہ ساری ترقی نوعِ انسانی کے لیئے اور خود ان قوموں کے لیئے جنہوں نے جد و جہد اور کوشش کے بعد نئی نئی ایجادات کی ہیں، مصیبت اور پریشانی بن گئی ہے۔ مصیبت اور پریشانی ایک روز ادبار بن کر زمین کو جہنم بنا دے گی۔
جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہونا یا چیزوں کا عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے اس وقت تک ذہن کی مرکزیت قائم رہتی ہے اور جب یہ یقین غیر مستحکم ہو کر ٹوٹ جاتا ہے تو آدمی ایسے عقیدے اور ایسے وسوسوں میں گرفتار ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ ذہنی انتشار ہوتا ہے، پریشانی ہوتی ہے، غم اور خوف ہوتا ہے۔ حالاں کہ اگر دیکھآجائے تو یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ انسان کا ہر عمل، ہر فعل، ہر حرکت کسی ایسی ہستی کے تابع ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ ماں کے پیٹ میں بچّے کا قیام، نو مہینے تک نشو و نما کے لیئے غذا کی فراہمی، دودھ کی غذائیت سے ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ بچّے کا بڑھنا، چھوٹے سے بچّے کا بڑھ کر ساتھ فٹ کا ہو جانا۔ جوانی کے تقاضے، ان تقاضوں کی تکمیل میں وسائل کی تکمیل، وسائل فراہم ہونے سے پہلے وسائل کی موجودگی۔ اگر اللہ زمین کو منع کر دے کہ وہ کھیتیاں نہ اُگائے تو حصول رزق مفقود ہو جائے گا۔ شادی کے بعد والدین کے دل میں یہ تقاضا کہ ہمارا کوئی نام لینے والا ہو، اس درجے میں انتہائی شدت اور اس کے نتیجے میں ماں باپ بننا، ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت صرف آدمی کے دل میں مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ جذبہ اللہ کی ہر مخلوق میں مشترک ہے۔ اور اسی محبت کے سہارے ماں باپ اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں، ان کی نگہداشت کرتے ہیں اور ان کے لیئے وسائل فراہم کرتے ہیں۔
عام طور سے یہ تاثر لیآ جاتا ہے کہ محنت اور جد و جہد کے بغیر وسائل کا حصول نا ممکن ہے جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جن وسائل کے حصول کے لیے ہم جد و جہد اور کوشش کرتے ہیں وہ ایک قاعدے اور قانون کے تحت پہلے سے موجود ہیں۔ کسان جب محنت کر کے زمین میں بیج ڈالتا ہے تو اس بیج کی نشو و نما سے انسانی ضروریات کے لیئے قسم قسم کی غذائیں فراہم ہوتی ہیں۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب پہلے سے وسائل موجود ہوں۔ مثلاً بیج کا موجود ہونا، زمین کا موجود ہونا، زمین کے اندر بیج کی نشو و نما دینے کی صلاحیت کا ہونا، بیج کی نشو و نما کے لیئے مانی کا موجود ہونا، چاندنی کا موجود ہونا، ہوا کا موجود ہونا اور موسم کے لحاظ سے سرد و گرم فضا کا موجود ہونا، اگر بیج موجود نہ ہو،یا زمین کے اندرنیج کو نشو و نما دینے کی صلاحیت موجود نہ ہو، پانی موجود نہ ہو، ہوا موجود نہ ہو تو انسان کی ہر کوشش بے کار ہو جائے گی۔
اللہ کا وصف یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو تخلیق کرتا ہے تو اس تخلیق سے اربوں، کھربوں تخلیقات وجود میں آتی ہیں۔ موجودہ دور میں بجلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ کی ایک ذیلی تخلیق بجلی (ELECTRICITY) ہے۔ اس بجلی کے ذریعے ہزاروں ایجادات منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اور آئندہ آتی رہیں گی۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر ہمارے اوپر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ اللہ نے وسائل اس لیئے تخلیق کئے ہیں کہ نوعِ انسان ان وسائل کے اندر مخفی قوتوں کو تلاش کر کے ان سے کام لے اور جب قوم ان مخفی صلاحیتوں کی تلاش میں لگ جاتی ہے تواس کے اوپر اللہ کی طرف سے نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں اور جب وہ انکشافات کی روشنی میں تفکر کرتی ہے تو نئی نئی ایجادات وجود میں آتی رہتی ہیں۔ قلندرشعور ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب دو (۲) رخوں پر قائم ہیں۔ تخلیق کا ایک رُخ ظاہر ہے اور دوسرا رُخ باطن ہے۔ پانی ایک سیّال چیز ہے۔ یہ اس کا ظاہری رُخ ہے لیکن جب پانی کے اندر مخفی صلاحیتوں کو تلاش کیا جاتا ہے تو اس کی بے شمار صلاحیتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اسی طرح لوہے کی مثال ہے۔ لوہا بظاہر ایک دھات ہے۔ لوہے کے ذرّات کے اندر جب کوئی شخص مخفی قوتوں کو تلاش کر لیتا ہے تو نئی نئی اختراعات اور ایجادات اس کے ارادے اور اختیار سے بنتی رہتی ہیں۔
جب ہم کسی چیز کے اندر اللہ کی صفات تلاش کرتے ہیں تو ہمارے اوپر یہ منکشف ہوتا ہے کہ پوری کائنات موجود ہے۔ کائنات میں جو کچھ بنایا گیا یا زمین میں جو کچھ موجود ہے سب انسان کے لیئے تخلیق کیا گیا ہے۔
استغنا سے مراد صرف یہی نہیں کہ آدمی روپے پیسے کی طرف سے بے نیاز ہو جائے، چون کہ روپے پیسے اور خواہشات سے کوئی بندہ بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ضروریاتِ زندگی اور متعلقین کی کفالت ایک لازمی امر ہے اور اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ استغنا سے مراد یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کرے اس عمل میں اس کے ساتھ اللہ کی خوشنودی ہو۔ اور اس طرزِ فکر یا عمل سے اللہ کی مخلوق کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے۔ ہر بندہ خود خوش رہے اور نوعِ انسانی کے لیئے مصیبت اور آزاد کا سبب نہ بنے۔ ضروری ہے کہ بندہ کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو کہ کائنات میں موجود ہر شئے کا مالک دروبست اللہ ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے زمین کو اور بیج کو یہ وصف بخشا ہے کہ بیج درخت میں تبدیل ہو جائے اور زمین اس کو اپنی آغوش میں پروان چڑھائے، پانی درختوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑے، ہوا روشنی بن کر درخت کے اندر کام کرنے والے رنگوں کی کمی کو پورا کرے، دھوپ درخت کے نا پختہ پھلوں کو پکانے کے لیئے مسلسل ربط اور قاعدے کے ساتھ درخت سے ہم رشتہ رہے۔ چاندنی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرے۔ زمین کی یہ ڈیوٹی ہے وہ ایسے درخت اُگائے جو انسان کی ضروریات کو پورا کرے۔ درختوں کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ ایسے پتّے اور پھل پیدا کریں کہ جن سے مخلوق کی ضروریات موسم کے لحاظ سے پوری ہوتی رہیں۔
(کتاب “قلندر شعور” سے اقتباس)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 211 تا 214

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)