اولیاء اللہ کی نماز
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17679
ایک روز اپنے آقا قلندر بابا اولیارح کی خدمت میں عرض کیا۔ ” حضور ! کیا آپ کو نماز میں مزہ آتا ہے؟”
فرمایا ” ہاں”
میں نے عرض کیا ” مجھے تو کبھی یہ پتہ نہ چلا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ خیالات ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائیں۔ مگر ذرا سی دیر کے لئے کامیابی ہوتی ہے اور پھر بھٹک جاتا ہوں”
فرمایا” میں تجھے ترکیب بتاتا ہوں۔ تجھے خوب مزہ آئے گا۔”
اور سجدہ کی حالت میں انگلیوں کی مخصوص حرکت تلقین فرمائی۔ اور فرمایا کہ صرف عشاء کی نماز میں آخری رکعت کے آخری سجدہ میں یہ حرکت کرنا۔
میں نے تہجد کے بعد وتروں کی آخری رکعت کے آخری سجدہ میں یہ حرکت کی تو واقعی میرے دل سے اضطراب، بے قراری اور بے چینی دھواں بن کر اڑ گئی۔ میں نے کہا سبحان اللہ !کیا خوب عمل ہے۔
فجر کی نماز میں آخری رکعت میں بھی اس عمل کو دہرایا۔ ظہر میں ، عصر میں، مغرب میں ، عشاء میں تہجد میں دہراتا چلا گیا۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ صرف ایک وقت یہ عمل کرنا ہے۔ تہجد کی آخری رکعت کے آخری سجدہ میں جب میں نے یہ حرکت دہرائی تو سجدہ کی حالت میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے دائیں بائیں کوئی کھڑا ہے۔ لیکن میں خوف زدہ ہونے کے باوجود اس عمل کو دہراتا رہا۔ اور سجدہ ضرورت سے زیادہ طویل کر دیا۔ اب تو ڈر کے مارے دم گھٹنے لگا۔ جلدی جلدی نماز ختم کی اور پلنگ پر جا کر لیٹ گیا۔
یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب ناظم آباد میں بجلی نہیں تھی۔ ہو کا عالم تھا۔ ماحول کے سناٹے میں گیدڑوں کی آواز کے سوا اور کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ میرے گھر کے آس پاس کوئی مکان بھی نہیں تھا۔ جو مکان تھے وہ فاصلہ پر تھے ۔ لیمپ بجھا ہوا تھا۔ گھبراہٹ میں دیا سلائی بھی نہیں ملی۔ اور اتفاق سے میں پورے گھر میں اکیلا تھا اور ڈر کا یہ عالم کہ الامان و الحفیظ۔ زبان پر کانٹے پڑ گئے۔ جیسے تیسے پلنگ پر لیٹے لیٹے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی۔ لیکن آیت الکرسی کےورد سے دہشت اور زیادہ بڑھ گئی۔ اور دل کی حرکت بند ہوتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ اور پھر ایک دم دل کی حرکت تیز ہو گئی۔ محسوس ہوتا تھا کہ دل سینہ کی دیوار توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ یک نہ شد دو شد۔
اب میں نے قُل ھو اللہ شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی قل اللہ شریف ختم ہوئی میرا جسم اوپر اٹھنے لگا اور آہستہ آہستہ اُٹھتا چلا گیا۔ اور برآمدے کی چھت سے جا لگا۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا کہ یہ واقعی چھت ہے یا میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ ہاتھ سے چھو کر دیکھا تو میں واقعی چھت سے لگا ہوا تھا۔
اب مجھے یہ خوف ہوا کہ اب میں نیچے گرونگا اور ہڈی پسلی اگر نہ ٹوٹی تو بھیجا تو ضرور باہر آجائے گا۔
میں نے دیکھا کہ تیزی کے ساتھ میری گردن کی طرف دو ہاتھ آئے ایک ہاتھ میں میرے دل کو سنبھالا اور ایک ہاتھ نے میرے منہ کو بند کر دیا۔ اور مجھ پر اس نادیدہ ہاتھ کی اس قدر دہشت طاری ہوئی کہ میں بےہوش ہو گیا۔ صبح کے وقت سے پہلے میں نے خواب دیکھا کہ میرے دادا، بڑے حضرت جیؒ اور بڑے پیر صاحب ؒبغداد والے حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کے مکان کے صحن میں گھبرائے ہوئے کھڑے ہیں۔ اور قلندر بابا گھبرائے ہوئے بہت بے چین ادھر سے ادھر ٹہل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ، “یہ کیا ہو گیا؟ ”
پھر زور سے فرمایا جیسے کسی سے کہہ رہے ہوں ” اس کو ہر حال میں باشعور زندہ رہنا ہے”۔ صبح جب اُٹھا ہوں تو میرے جسم کا ایک ایک عضو دکھ رہا تھا شام قدرے قرار آ گیا۔ اور میں سائیکل رکشہ پر بیٹھ کر حضور قلندر بابا اولیاء کے پاس گیا اور رات کا ماجرہ بیان کیا۔
فرمایا ” تم نے میرے کہنے کے خلاف عمل کر کے سب کو پریشان کر دیا۔ اللہ نے فضل فرمایا ، نہیں تو کام تمام ہو گیا تھا۔”
میں نے سجدہ میں کرنے والا عمل بالکل تو ترک نہیں کیا ۔ البتہ صرف تہجد کے وقت جاری رکھا۔
اسی دوران میں تہجد کی نماز کے وقت میں درود شریف کا ورد کر رہا تھا۔ دیکھا چکا چوند روشنی ہو گئی۔ اور حضور سیدنا پیر دستگیر شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ، میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ فرمایا،” میں تمہیں کچھ عطا کرنا چاہتا ہوں۔ تم آنکھیں بند کر کے مراقبہ کی نیت کرو ۔”
میں نے عرض یا ۔” حضور میں اس سلسلہ میں بہت مصیبت زدہ اور دل گرفتہ ہوں۔ مجھے چوہدری صاحب سے خوف آتا ہے۔”
فرمایا تم فکر نہ کرو ۔ہم سب خود ٹھیک کر لیں گئیں۔ میں نے پھر نہایت مودبانہ عرض کیا ۔” حضور میں نے یہ وعدہ کر لیا ہے کہ چوہدری صاحب کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرونگا۔”
بڑے پیر صاحب کو جلال آگیا اور فرمایا” کیا چوھدری صاحب، چوھدری صاحب کی رٹ لگا رکھی ہے۔ ہم جو کچھ عطا فرماتے ہیں، براہ راست فرماتے ہیں”
میری جہالت ملا حظہ فرمائیے۔ میرے اوپر حضور غوث پاک ؒ کی ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور میں اڑیل ٹٹو کی طرح اپنی بات پر اڑا رہا۔ اور حضور غوث پاک ؒ تشریف لے گئے۔ مجھے اپنی اس غلطی پر دلی افسوس ہے۔ میں نے غلطی کی معافی تلافی بھی کی شاید جو آئندہ صفحات میں بیان ہو جائے مگر مجھےحضور غوث پاک ؒ نے اپنے فیض سے ابھی تک نہیں نوازا۔ مگر میں دل چھوڑنے والا بندہ نہیں ہوں۔ جب بھی حضور غوث پاک ؒکی زیارت سے مشرف ہوا اپنا حصہ حضور سے ضرور مانگ لوں گا۔
بات یہ ہے کہ میں بچہ ہوں اور یہ سب بزرگان عظام میرے باپ ہیں۔ ان برگزیدہ ہستیوں میں باپ کی پوری شفقت موجود ہے۔ اور مجھ سیاہ کار میں بچہ بننے کی پوری صلاحیت اللہ تعالٰی نے ودیعت فرمائی ہے۔ بچہ جب باپ سے کسی بات کی ضد کر لیتا ہے تو بچہ کی ضد کو پوری کرنی ہوتی ہے۔ لیکن اتنی بات بچہ کو ضرور معلوم ہونی چاہئیے کہ ضد کا پس منظر کیا ہے؟ ہم اپنے آقا۔۔۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی ضد کر سکتے ہیں کہ حضور، کچھ بھی ہو، ہمیں تو اللہ تعالٰے کا عرفان چاہیئے۔ اگر ہمارے اندر صلاحیت خفتہ ہے تو آپ اسے بیدار کر دیجئے اور اگر صلاحیت موجود ہی نہیں ہے تو عرض کیا جائے گا کہ حضور عرفان کی صلاحیت عطا فرمادیجئے۔
اس خواہش اور تقاضے کو پورا کرنے کیلئے کوئی بھی انسان حضور سیدنا سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور درخواست کر سکتا ہے اور درخواست کو منظور کرانے کے لئے رو کر گڑگڑا کر، مقدس و مہطر قدموں میں سر رکھ کر، حضور کو، اللہ کے اسمائے مقدسہ کو وسیلہ بنا کر ، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ رض اور اہل بیت رض کو بیچ میں واسطہ بنا کر اور خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات والا صفات کو واسطہ دے کر کوئ بندہ اس درخواست کو بضد ہو کر قبول کرا سکتاہے۔ ذہن میں باپ اور بیٹے کا رشتہ موجود ہونا ضروری ہے ۔ یہ میرا تجربہ ہے کہ اس طرح درخواست قبول کر لی جاتی ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام رحمتہ اللعالمین ہیں۔ جب کوئی بندہ اس یقین کے ساتھ حضور کائنات کو محیط ہے اور میں بھی اس کائنات کا ایک ذرّہ ہوں۔ لہذا اس رحمت سے ضرور مستفیض ہوں،بس ایک پردہ حائل ہے اور اس پردہ کو حضور کا کرم ہی اٹھا سکتا ہے۔ سیدّنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے ہاتھ پھیلا دے کہ جب تک مراد پوری نہیں ہوگی۔ یہ ہاتھ بند نہیں ہوں گے۔ حضور کا دریائے رحمت جوش میں آ جائے گا اور آپ اس رحمت سے سیراب ہو جائیں گے۔ یہی حال اولیا اللہ کا بھی ہے یہ بھی حضور کے اوصاف حمیدہ سے متصف ہوتے ہیں۔
تہجد کی نماز کے بعد میں نے درود خضری پڑھتے ہوئے خود کو سرور ِ کائنات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار اقدس میں حاضر پایا۔ مشاہدہ کیا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام تخت پر تشریف فرما ہیں۔ اس بندے نے حضورﷺ کے تخت کے سامنے دوزانوں بیٹھ کر درخواست کی ۔
یا رسول اللہ ؛ اے اللہ کے حبیب ﷺ ، اے باعث تخلیقِ کائنات، محبوبِ پروردگار ، رحمت للعالمین، جن و انس اور فرشتوں کے آقا، حاصلِ کون و مکان، مقامِ محمود کے مکین، اللہ تعالےٰ کے ہم نشین، علمِ ذات کے امین، خیر البشر، میرے آقا؛ مجھےعلمِ لدنیّ عطا فرما دیجئے۔ میرے ماں باپ آپ علیہ الصلوۃ والسلام پر نثار۔۔۔۔۔ آپ کو حضرت اویس قرنی رض کا واسطہ، حضرت ابو ذر غفاری رض کا واسطہ، آپ ﷺ کو آپ ﷺکے رفیق حضرت ابوبکر رض کا واسطہ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت خدیجہ الکبٰری رض کا واسطہ، آپ کو حضرت فاطمہ، علی اور حسنین رض کا واسطہ اپنے اس غلام پر نظرِ کرم فرما دیجئے۔
میرے آقا! آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کریم کا واسطہ، آپ ﷺ کو اسم اعظم کا واسطہ، آپ کو تمام پیغیبروں کا واسطہ، آپﷺ کے جد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واسطہ اور ان کے ایثار کا واسطہ۔میرے آقا! میں آپ ﷺ کے در کا بھکاری ہوں۔آپ ﷺ کے سوا کون ہے جس کے سامنے سوال دراز کروں۔ میں اس وقت تک در سے نہیں جاؤں گا جب تک آپ ﷺ میرا دامن مراد سے نہیں بھر دیں گے۔
آقا! میں غلام ہوں، غلام زادہ ہوں۔ میرے جدامجد حضرت ابو ا یّوب انصاری رض پر آپ کی خصوصی رحمت و شفقت کا واسطہ مجھے نواز دیجئے۔
دریائے رحمت جوش میں آگیا۔
فرمایا۔” کوئی ہے؟”
دیکھا کہ حضور قلندر بابا اولیا ؒ دربار میں آکر مودّب ایستادہ ہیں اس طرح جیسےنماز میں نیت بندھے باندھے کھڑے ہوں۔ نہایت ادب و احترام کے ساتھ فرمایا” ۔ یا رسول اللہ!میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا غلام حاضر ہوں۔”
حضور علیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے ارشاد فرمایا۔” تم اس کو کس رشتہ سے وراثت دینا چاہتے ہو؟”
حضور قبلہ نے فرمایا۔” اس کی والدہ میری بہن ہے”۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تبسّم فرمایا اور ارشاد ہوا۔” خواجہ ایّوب انصاری کے بیٹے، ہم تجھے قبول فرماتے ہیں”
اس وقت میں نے دیکھا کہ میں حضور قبلہ کے پہلو میں کھڑا ہوں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 32 تا 38
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔