امتحان
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2413
پریشان حالی اور درماندگی نے ہشت پا بن کر نوع انسانی کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ درآنحالے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں نوع انسانی وہ مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی حامل ہے جن کے متحمل ہونے سے سماوات، ارض اور جبال نےعاجزی کا اظہار کر دیا تھا۔ اللہ تعا لیٰ کے قانون کے مطابق جب کوئی قوم صراط مستقیم سے بھٹک جاتی ہےتو وہ امتحان کی چکی میں پسنے لگتی ہے تا کہ صعوبتوں، پریشانیوں اور عدم تحفظ کے زہریلے احساس سے محفوظ رہنے کے لیئے وہ راستہ تلاش کر لے جو فلاح اور سلامتی کا راستہ ہے۔
یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں ہرایک کسی نہ کسی امتحان میں دانستہ یا نا دانستہ مصروف عمل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آدمی امتحان میں کامیاب ہو کر اپنی زندگی کا کوئی رُخ متعین کر لے۔ کوئی دولت مند ہے، کوئی غریب نادار اور بیمار ہے اور کوئی ایسا بھی بدبخت ہے جسکے ذہن میں بزرگوں اور ماں باپ کی عزت و توقیر نہیں ۔ یہ سب باتیں امتحان کا درجہ رکھتی ہیں۔
کا ئنات کی تخلیق دو رخوں پر کی گئی ہے ایک رُخ سے دوسرا رُخ ایک مرحلہ ہے اور ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں قدم رکھنا ایک امتحان ہے۔ آپ ذرا اس بچّے کا تصور تو کیجئے جو کمرہ امتحان میں بیٹھ کر جب پرچہ سامنے آئے تو بجائے پرچہ حل کرنے کے رونا شروع کر دے، فریاد کرنے لگے اور احتجاج کرے کہ میرا امتحان کیوں ہورہا ہے۔
نشوونما اور انسانیت کی فلاح و ترقی کندن ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امتحان کی بھٹیوں سے گزر کر ہی سونا کندن بنتا یے۔ نوع انسان ان بھٹیوں سے نہ گزری ہوتی تو آج بھی لوگ غاروں کے مکیں ہوتے۔
کوئی مسئلہ اس وقت تک قابل حل نہیں ہے جب تک صاحبِ مسئلہ خود اُس مسئلہ کو حل کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ ساری دعائیں، وظیفے اور دوائیں صرف ایک ہی کام انجام دیتی ہیں، وہ یہ کہ سائل، بیمار ہو یا پریشان حال اس کے اندر قوتِ ارادی میں اضافہ ہواور اس کے اندر اتنی وِل پاور (خود اعتمادّی) پیدا ہو جائے کہ وہ مسائل و معاملات کی بھول بھلیوں سے نکل کر ذہنی یکسوئی کے ساتھ آزاد ہو سکے۔
دنیا میں جتنے عظیم لوگ پیدا ہوئے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی مسئلہ سے دور چار رہے ہیں لیکن وہ اس نقطے سے باخبر ہوتے ہیں کہ مسائل اس وقت تک مسائل ہیں جب تک انسان ذہنی یکسوئی اور سکون کی زندگی سے نآشنا ہے۔ ان لوگوں کے اوپر سے مسائل و تکالیف کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے جو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں کسی ایسے شخص کی مدد کیجئے جو نادار ہے، ضرورت مند ہے۔ پھر دیکھئے کہ آپ کو کتنا سکون ملتا ہے- دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کام آ نا انسانیت کی معراج ہے اور یہی وہ ،مشن ہے جس کو عام کرنے کےلیئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ہیں جن کا پیغام ہے:
“اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا مثل بنایا ہے اور انسانیت کی خدمت اللہ کی خدمت ہے۔”
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
زندگی کی چھان بین کرنے سےایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ آدمی کی تصویر مختلف النوع خیالات کے رنگوں سے مرکب ہے۔ خیال ہمیں مسرت آگیں زندگی سے قریب کرتا ہے۔ اور یہی خیال ہمیں غم ناک زندگی سے آشنا کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہےکہ سائنس ترقی کے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ لیکن آج کے سائنس داں یہی کہہ رہے ہیں جو ہزاروں سال پہلے رُوحانیت کے علم بردار کہہ چکے ہیں اور جس کا پرچار آج بھی ان کے پیروکار حضرات کا مشن ہے۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ مادّہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ زندگی کا قیام لہروں پر ہے اور لہریں خیالات کآجامہ پہن کر ہر شے کا وجود بن رہی ہیں۔ مادے سے بنی ہوئی تصویروں میں ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے وہ مفروضہ اور محض فریب نظر ہے۔
نوع انسانی کے نجات دہندہ، محسن انسانیت حضور رحمۃ للعالمین ﷺ نے چودہ سو سال پہلے اس کی عقدہ کشائی اللہ کے کلام میں اس طرح فرمائی” اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ “ اللہ آسمانوں اور زمین کی رو شنی (لہر) ہے۔
آدمی جو خود کو اشرف المخلوقات کہتا اور سمجھتا ہے اگر اپنی ابتداء اور انتہاء پر غور کرے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس تعمیر کی پہلی اینٹ سڑاند اور تعفن سے بنی ہے۔ اور انتہاء یہ ہے کہ اس کا خوبصورت جسم کیڑوں کی خوراک بن جاتا ہے۔ باوجود اس واضح اور کھلی حقیقت کے کتنے لوگ ہیں جو اپنی ابتداء اور انتہاء پر غور کرتے ہیں؟ تخیل کی پرواز کا مطالعہ کیآجائے تو نظر آتا ہے کہ ہر شخص ذاتی منفعت کی خیالی دنیا میں مگن ہے۔ ایک ہی خیال اس کی طلب اور مقصد حیات بن گیا ہے۔ دولت۔ دولت۔ اور صرف دولت ۔ وہ دولت جو بذاتہٖ ایک ایسی لا انتہاء دلدل ہے جس میں اگر کوئی آدمی اشرف حواس میں زندہ نہیں رہ سکا۔
جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر ڈالتے ایسے لوگ بالآخر درد ناک عذا ب میں مبتلا رہتے ہیں۔ دولت کا حصول بری بات نہیں ہے المیہ یہ ہے کہ ہم نے سب کچھ دولت ہی کو سمجھ لیا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا زہر معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سکون کے ایک لمحہ کو بھی ترستے ہیں اور عدم تحفظ کا احساس ہمارے اوپر مسلط ہے ۔رشتوں کا تقدس پر دولت کی چھاپ لگ گئی ہے۔ ایک دوڑ ہے جو ہمیں حوس پرستی کے خیالی گھوڑے پر ہمیں آگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔
ہر زمانے میں عقل مندوں نے ہوس زر کی مخالفت کی ہے ۔ قرآن نے اسے “حطمہ” کہا ہے جس کی آگ ستون کی مانند دلوں پر چڑہ جاتی ہے ۔ اور آدمی کو بھسم کر ڈالتی ہے۔ جو دولت “حطمہ” نہیں ہے وہ روشن سورج، تاروں بھری رات، چاند کی ٹھنڈک ، عطر بیز ہوائیں، اور ایک پرسکون دل ہے جس میں طمع اور لا لچ نہیں ہوتا، جو جھوٹ سے بچتا ہے۔ جس میں دوسروں کے کام آنے کآجذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے اور جو اللہ کی مخلوق کے لیئے زندہ رہنے کی تمنا کرتا ہے اور ایسے ہی صاحب دل لوگ ہیں جن کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور ان کی تخلیقی سوچ اللہ کی سوچ ہوتی ہے ان کی نظر میں سب اپنے ہوتے ہیں۔ انہیں سب میں اللہ کا نور نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی ایسے روشن اور پاکیزہ خیالات کا مرقع ہے جن میں کوئی کثافت نہیں ہو تی۔ لالچ اور گمراہی کے عقوبت خانوں کے دروازے ان کے اوپر بند ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایسی حلاوت ہوتی ہے جیسی حلاوت شیرخوار بچّے کو ماں کی گود میں ملتی ہے۔
۔ آپ ذرا لالچ اور طمع اور ہوسِ زر کی بندشوں کو توڑ کر تو دیکھیے کتنا سکون ملتا ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی برا نہیں ہوتا۔ خیالات، اچھے یا برے ہوتے ہیں آپ کے پاس اگر دولت ہے اسے اللہ کی راہ میں سسکتی روتی اور کراہتی ہوئی انسانیت پر خرچ کیجئے۔ جو کچھ آپ کے پا س ہے اس پر شکر بجا لائیے۔ جو نہیں ہے اس پر کڑھئے نہیں ۔ احساس کمتری سے خود کو دور ر کھیے۔ قدر و منزل، شرافت و نجابت کا معیار دولت نہیں ، ہر آدمی کے پا کیزہ اور زندہ خیالات ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 19 تا 23
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔