امانت
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2417
دوستوساتھیو!
ہم سب ایک دوسرے کی دعاؤں کے محتاج جس قدر آج ہیں شاید اس سے پہلے احتیاج کی یہ صورت نہ رہی ہو۔ ہر گھر میں ہر فرد مضطرب اور بے چین ہے۔ کبھی آپ نے یہ سوچا بھی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب اخلاقی اقدار ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں اور آدمی اپنی رُوح سے دور ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر مادّیت کا خول غالب آ جاتا ہے۔ مادہ کیا ہے؟ عناصر کا ایسا مجموعہ جس کی فطرت میں ہر آن اور ہر لمحہ تغیر پزیری ہے۔ کبھی آپ نے مادہ کو ایک حال پرقائم دیکھا؟ مادہ (Matter) کی تخلیق کا منشا ہی یہ ہے کہ اس میں رد و بدل ہوتا رہے۔ جس چیز میں زیادہ رد و بدل ہوتا ہے وہ اتنی ہی زیادہ حقیقت سے دور ہوتی ہے۔ حقیقت میں کبھی تغیر نہیں ہوتا۔ وہ قائم بالذّات ہے۔ جو چیز قائم بالذّات ہے وہ نشیب و فراز اور حالات کے تغیر سے متاثر نہیں ہوتی۔ انسان کیا ہے؟ رُوح ہے، رُوح کیا ہے؟ رُوح اللہ کا امر ہے، اللہ کا امر کیا ہے؟ اللہ کا امر اللہ کا ارادہ ہے، اللہ کا ارادہ کیا ہے؟ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے ہو اور وہ ہو جاتی ہے۔
ذرا بھی تفکر سے کام لیا جائے تو یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اور بحیثیت فرد رُوح ہیں۔ رُوح اللہ کا امر ہے اللہ کا امر اللہ کا ارادہ ہے اور اللہ کا ارادہ جب حرکت میں آ جاتا ہے تو کائنات کے مظاہر چھپنے لگتے ہیں اتنی تعداد میں چھپتے ہیں کہ دنیا کی شماریات عاجز ہیں۔
اب جب ہم اپنے ماحول، اپنے گھر کے ماحول، غم آشنا زندگی، صعوبت سے پُر حالات، پیچیدہ اور الم ناک خیالات، الجھے ہوئے اور ازکار رفتہ تصورات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے صرف اور صرف ایک ہی بات آتی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کوایک مادّی خول میں قید کر لیا ہے۔ رُوح سے اپنا رشتہ تقریباً منقطع کر چکے ہیں۔ کتنی بدنصیب ہے نوع انسان کہ سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی مفلس و قلاش ہے، تہی دست اور تنگ ظرف ہے کہ آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مادہ (Matter) سے محض عارضی رشتہ ہے، اسی کو مقصد زندگی قرار دے لیا ہے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ وقت مقررہ کے بعد بہرحال بیک بینی و دو گوش اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اورمادہ سے بنے ہوئے آسائش و آرام کے سارے سامان ہم سے جبراً اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں۔
اے آدم زاد! تیرے لیئے قدرت اتنی رحیم و کریم ہے کہ اس نے ہر موڑ پر تیرے لیئے معافی کے دروازے کھول دئیے اور تجھے اپنے دامن عافیت میں لینے کے لیئےایک لا کھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے —– اے کاش تو سوچتا تو نے کیا کھویا ہے کیا پایا ہے۔
اے آدم و حوا کی نافرمان اولاد! تو نافرمانی کے اس گندے تالاب میں غرق آب ہے جہاں دنیا اور دین کا خسارہ ہے بلا شبہ یہ ایسا خسارہ ہے جو انسانی بد نصیبی کا مکروہ داغ ہے۔
دوستو ساتھیو!
آؤ اپنی اس میراث کو تلاش کریں جس کے متحمل سمٰوٰات ارض اور پہاڑ بھی نہیں ہو سکے۔ وہ میراث جس کے سامنے آسمان، زمین، ستارے، شمس و قمر سب مسخر ہیں۔
یہ امانت مادہ کے خول سے ماورا، ہماری رُوح کے اندر موجود ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 27 تا 29
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔