اللہ میاں
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6220
جب سے نوع انسانی نے زمین پر آنکھ کھولی ہے لاکھوں، اربوں آدم زاد اس زمین سے اُبھرے اور جب ان کی رُوحوں نے جسموں سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا، اس دھرتی نے ان کے خاکی جسموں کو خاص و عام کی تخصیص کے بغیر اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ کیا بادشاہ، کیا فقیر سب سطح زمین کے نیچے جا چھپے۔
اسی زمین کے ایک شہر لاہور میں جہاں ایک طرف ملکہ نورجہان فرشِ خاک کے نیچے موجود ہے وہاں دوسری طرف داتا گنج بخش ہجویریؒ بھی محو استرحت ہیں۔ نورجہاں کی قبر پر جایئے تو وہاں افسردگی اور ویرانی کا راج ہے۔ لوگ وہاں جاتے ہیں تو تفریح و دلچسپی کیلیئے۔ یہ وہ نورجہاں ہے جو ایک زمانے میں ہندوستان کے سیاہ و سپید کی مالک تھی۔ اس کے برعکس داتا گنج بخشؒ کا مزار ذکر و سلام کی آوازوں سے گونجتا ہے۔ وہاں عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں۔ حالاں کہ داتا صاحبؒ اپنی زندگی میں نہ کسی دنیاوی حکومت کے مالک تھے نہ آپ کے پاس مال و زر کا کوئی ڈھیر تھا۔
ایسا کیوں ہے؟
اس لیئے کہ جو شخص اپنے اندر موجود اس رُوح سے واقف ہو جا تا ہے جو ہدایت کا پرتو اور صفات الٰہیہ کا مظہر ہے تو زمان و مکان پر اپنا پہرہ نہیں بیٹھا سکتے۔ مٹی کی چپک (GRAVITY) اس کو قید نہیں کر سکتی۔ وہ ہر زمانے میں زندہ و پائندہ رہتا ہے۔ جب وہ دنیا میں ہوتا ہے تو اس کے پاس عرفان کی دولت کے سوا کچھ نہیں ہوتا لیکن لوگ اس کی طرف کھنچ کھنچ کر آتے ہیں۔ اور جب وہ اس دنیا سے پردہ کر لیتا ہے تو مخلوق پروانے کی طرح اس کے مرقد کے گرد طواف کرتی ہے۔ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ ایسے ہی پاکیزہ نفس بندوں کے سرگروہ اور سرخیل ہیں۔
انبیاء کرام کی شخصیات دراصل ایک طرز فکر سے عبارت تھیں نبوت کا یہ سلسلہ خاتم النبیّین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہو گیا لیکن کیوں کہ اللہ کی سنّت میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل، اس لیئے ہر زمانے میں حضور اکرم ﷺ کی طرزِ فکر اور ان کے علوم کے وارث ایسے بندے پیدا ہوتے رہے تا کہ نور و ظلمت کا توازن قائم رہے اور نوع انسانی اس طرزِ فکر سے روشناس ہو جائے جو اسے خوف اور غم سے نجات دلاتی ہے۔
مینارۂ نور ہدایت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے وارث قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنے پیچھے فکر کی وہ روشنی چھوڑی ہے جس کی رہ نمائی میں آج کی پریشان ذہن اور پراگندہ دل نسل اپنے مستقبل کو سنوارسکتی ہے۔ آج نوع انسانی جس ذہنی کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر انبیاء کی طرزِ فکر کا انعکاس کم سے کم ہوتاجا رہا ہے اور اس کے اپنے بنائے ہوئے مفروضہ حواس نے اُسے حقیقت و آگاہی سے محروم کر دیا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
انبیاء کرام جب کسی چیز کے متعلق سوچتے ہیں تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہِ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعٰالے ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہِ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔ جب ان کی طرزِ فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں پہلے اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مدِ نظر قرار پا تا تھا اور قانون کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں۔ اور ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا ۔”
اس اجمال کی تفصیل میں آپ نے فرمایا:
“اگر ہم کسی شخص کی قربت حاصل کرنا چا ہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گآجو ہمارا مطلوب کرتا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے دوستی اور قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گآجو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں ۔”
بابا صاحب سے عرض کیا گیا۔ “حضور ! اللہ میاں بھی کوئی کام کرتے ہیں اور اگر کرتے ہیں تو کیا بندہ وہ کام کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں؟
فرمایا ۔”اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت میں مشغول ہیں۔ مخلوق کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی زندگی کے لیئے وسائل فراہم کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مخلوق سے کوئی صلہ یا بدلہ نہیں چاہتے۔ بندہ اگرچہ خالق کی سطح پر مخلوق کی خدمت نہیں کر سکتا لیکن اپنی سکت، صلاحیت اور بساط کے مطابق کسی صلے یا بدلے کے بغیر وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے۔ وہ مخلوق ہوتے ہوئے وسائل کی احتیاج سے ماورا نہیں ہو سکتا لیکن اپنی ہر حاجت اور ضرورت کو اللہ تعالیٰ کی ذات اکبر سے وابستہ کر سکتا ہے۔ اس طرزِ عمل کی وجہ سے وہ اللہ کی بادشاہت کے کا ایک رکن بن جاتا ہے۔”
مزید فرمایا:
“ہر کام پوری جد و جہد اور کوشش سے کیا جائے لیکن نتائج کو اللہ تعالےٰ کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔”
بابا صاحبؒ نے نوع انسانی کو یاد دلایا کہ:
“تسخیر کائنات اور جنّت کی زندگی اس کا ورثہ ہے لیکن اس ورثہ کے حصول کے لیئے ضروری ہے کہ انسان اس صلاحیت سے متعارف ہو جو جنّت کی زندگی میں اسے حاصل تھی۔ اس صلاحیت کا حصول رُوح سے قریب ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنے انر (INNER) سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ ابدی سکون و راحت کو پالیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 120 تا 123
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔