اسرائیل
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6214
لبنان کی سرزمین پرموت رقص کنان ہے۔ منافقت کا دیوتآجا اٹھا ہے، جبرو استبداد کا دور دورہ ہے۔ معصوم بچوں کے خون سے صحرا کی آبیاری کی جا رہی ہے۔
وسائل سے معمور بڑی بڑی بادشاہتوں کے درمیان چھوٹے سے ملک کے باسی تیس لاکھ اسرائیلیوں نے ظلم و بربریت کا ایسا المناک مظاہرہ کیا ہے کہ مظلوموں کی دل دوز، چیخوں، جگر سوز آہ و بکا، نالہ و شیون سے نوّے کروڑ مسلمانوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کے فر ستا دہ پیغمبروں کی سر زمین ہم سے رو ٹھ گئی اور ہمارے اندر حیا اور شرم کی لالی سے آسمان شفق آلود ہو گیا ہے۔
یہ وہ اسرائیل جس کے با رے میں ہم سنتے آئے ہیں کہ ﻏَﯾْرِ اﻟْﻣَﻐْﺿُوبِ ﻋَﻠَﯾْﮭِمْ وَﻻ اﻟﺿﱠﺎﻟِّﯾنَْ سے مراد یہودی ہیں بچپن کا وہ زمانہ جو شعور کی سطح پر حافظہ کے نا م سے نقش ہے، یہ یاد دلا رہا ہے کہ چار کم سال ساٹھ سال سے ہر مسجد، ہر منبر، ہر مکتب اور وعظ و نصیحت کی ہر محفل میں اپنے مذہبی پشواؤں کو ہم نے یہ دعا کرتے سنا ہے کہ یا اللہ یہود کو نیست و نابود کر دے اور مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے ہم کنار کر۔ آج جب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بیت المقدس ہم سے چھین لیا گیا ہے، ہیکل سلیمانی کے پردے میں اس کی بنیادوں پر کدال چلا دی گئی ہے اور اب جب کہ بیروت جل رہا ہے، وہاں کی مسلم آبادی زہریلے بموں کے نرغے میں موت و زیست کے دوازے پر کھڑی ظلم و ستم کے آہنی پنجے میں سسک رہی ہے تو یہ کہے بغیر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوّے کروڑ مسلمانوں کی آدھی صدی سے زیادہ کی دُعائیں بے کار ثابت ہوئیں۔ یہ غلغلہ تو عام ہے کہ بیروت جل رہا ہے۔ اسرائیل فتح و کامرانی کے نشے میں اپنے ضمیر کا گلہ گھونٹ رہا ہے۔ معصوم نونہال، نرم و نازک صنف لطیف خواتین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ بوڑھے معذور و مفلوج ہوچکے ہیں۔ مگر یہ صدا کسی گوشے سے سنائی نہیں دیتی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور وہ قوم جس سے قدرت نے فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا آج زمین پر بوجھ کیوں بن گئی ہے؟
فتح و نصر ت اور کامرانی کی بشارت نبیِ برحق حضورِ اکرم ﷺ نے دی تھی اور حصُول نُصرت کا راستہ بھی متعیّن کر دیا تھا۔
کیوں ہم نے اپنے دلوں پر مہریں لگا لی ہیں اور کیوں ہم نے اپنی آنکھوں پر دبیز پردے ڈال لیٔے ہیں؟ ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ با عثِ تخلیق کائنات ﷺ نے عمل کے ساتھ دعاؤں کا سہارا لیا ہے۔ مکےّ کی زندگی میں دعا اور عمل ساتھ ساتھ قائم رہے ہیں۔ یہ وہ ذات اقدس و مکرّم و محترم و محتشم ہے جس کے ایک اشارے سے چاند دولخت ہو گیا تھا۔ یہ ربّ العالمین کی وہ محبوب ذات ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے راز و نیاز کی با تیں کیں۔ اور اپنی قربت کا وہ اعزاز عطا فرمایآجو نوع انسانی میں کسی کو حاصل ہوا اور نہ ہو گا۔ یہ وہی مسجود ملائکہ ذات ولاتبار ہے جس کے سامنے جبرئیلؑ دو زانو ہو کر بیٹھے ہیں۔ یہی “بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر” شخصِ اکبر ہے جس کی امامت میں جلیل القدر پیغمبروں نے نماز ادا کی اور ہر پیغمبر نے آسمانی کتاب میں اس نجات دہندہ کے آنے کی بشارت دی۔
عمل کے بغیر اگر دعاؤں سے کام ہو جاتے تو مکےّ سے مدینے کی طرف ہجرت کی کیا ضرورت تھی؟ حضورؐ کا دندانِ مبارک کیوں شہید ہوا؟ حضورؐ نے مدینے سے مکےّ کی طرف فوج کشی کیوں کی؟حضورؐ نے شہری زندگی سے قطع تعلق (BOYCOTT) کیوں منظور فرمایا؟حضورؐ کی سیرت پاک ہمیں بتاتی ہے کہ حضورؐ نے کبھی عمل اور تدبیر کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا تدبیر اور عمل کے مثبت نتائج کے لیئے دعائیں کیں
عمل کے بغیر دعا ایک ایسآجسم ہے جس میں رُوح نہیں ہے اور جب جسم میں سے رُوح نکل جاتی ہے تو اس کی حیثیت ایک لاش کی ہوتی ہے جو کسی کام نہیں آتی۔ اسی طرح وہ دعآجس کے پیچھے کوئی عمل نہیں ہوتا قوموں کے لیئے ادبار بن جاتی ہے۔
ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں جس کا مظاہرہ آج ہو رہا ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم صرف دعاؤں کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم عمومی دعائیں اور خصوصی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ آدھی صدی سے زیادہ کا زمانہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے من حیث القوم کافروں کے اوپر فتح و کامرانی کی کوئی دُعا قبول ہوتے نہیں دیکھی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
دعائیں اس لیئے قبول نہیں ہوتیں کہ ان کے ساتھ عمل نہیں ہے اور تخلیق کا راز یہ ہے کہ عمل بجائے خود تخلیق ہے۔ ہم اپنی معاش کے لیئے دھوپ کی تپش میں سرگرادں رہتے ہیں۔ اور سردی کی یخ بستہ راتوں میں اپنی نیندیں خراب کرتے ہیں۔ افزائشِ نسل کے لیئے شادیا ں کرتے ہیں۔ جب دُعائیں توپ و تفنگ، میزائیل، راکٹ اور بم بن کر اسرائیل کو تباہ کر سکتی ہیں تو زندگی کے ان سب ہنگاموں کی کیا ضرورت ہے؟ کسان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ زمین کے سینے کو چیر کر اُس سے غذائی ضروریات پوری کرے؟ دھوپ کی تمازت اورژالہ باری سے بچنے کے لیئے آخر ہم مکان کیوں بناتے ہیں؟جب عمل کے بغیر دُعا سے ہر کام ہو سکتا ہے تو ہم زندگی سے متعلق معاملات میں جدوجہد اور کوشش کرنے کے بجائے مانگ لیا کریں ۔۔۔ یا اللہ ! ہمیں اولاد دے، یا اللہ ! ہمارا مکان بنا دے، یا اللہ ! ہم سے محنت مزدوری نہیں ہوتی ہمارے منہ میں روٹی کے لقمے ڈال دے۔
آخر یہ کس قسم کا مذاق ہے کہ جب انفرادی زندگی زیر بحث آتی ہے تو ہمارا عضو عضو مصروف عمل ہو جا تا ہے اور جب اجتماعی زندگی درپیش ہوتی ہے تو ہم دعا کے لیئے ہاتھ باندھ کربیٹھ جاتے ہیں۔ اگر صرف دعا ہی سے کا فر جہنّم رسید ہو جاتے تو جہاد کس لیئے فرض کیا گیا؟
یاد رکھئے ! جو لوگ صرف دعائیں کراتے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ عملی اقدامات کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ ہرگز قوم کے دوست نہیں۔ بزعمِ خود یہ وہ نادان دوست ہیں جن کی تدبیریں ہمیشہ رُسوا اور ذلیل کرتی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بے عملی قوم کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور ہر فرد اپنی ذات میں بند ہو جاتا ہے۔ بے عمل بندہ اللہ کی نافرمانی کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ سے اللہ کی رسی چھوٹ جاتی ہے اور سیسہ پلائی ہوئی قومی دیوار میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ عمل سے جی چرانے والی قومیں ناکارہ، مفلوج اورمغضوب بن جاتی ہیں۔
کوئی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جو اس زہر ناک طرز عمل سے قوم کو آگاہ کرے؟ کوئی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ جو عالم اسلام کو یہ بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی عمل اور عمل سے عبارت ہے؟ خالق کائنات نے اس کائنات کو متحرک اور فعّال بنایا ہے۔ چا ند، سورج، ستارے ، زمین، آسمان ، فرشتے، ہر چیز اور ہر مخلوق مسلسل حرکت میں ہے۔ اللہ کے فرستادہ پیغمبروں اور اس راہ پر چلنے والے تمام اولیاء اللہ نے ہمیشہ عمل کی تلقین کی ہے۔ اور بے عملی سے اجتناب کی نصیحت کی ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
جب سے ہم نے عمل کو ترک کیا ہے اور صرف دعاؤں کا سہارا لینا شروع کیا ہے، ہمارے اندر سے نور نکل گیا ہے اور نار نے ہمیں اپنا لقمہ تر سمجھ لیا ہے۔
اے واعظو! اے منبر نشینو! اے قوم کے دانشورو ! برائے خدا، سوتی قوم کو جگاؤ اور بتاؤ کہ بے عمل قومیں غلام بن جاتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 97 تا 101
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔