آتش فشاں
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6204
دوستو۔ ۔۔ ! میں کون ہوں؟
بھا ئیو۔ ۔۔ ! آپ کون ہیں؟
ساتھیو۔۔۔ ! یہ دنیا کیا ہے؟
عزیزو ۔۔۔! یہ کیسی بقا ہے کہ ہر لمحہ فنا کے دوہ پر رقصاں ہے؟
ہوا یوں کہ رات کے وقت جب آسمان جگ مگ کر رہا تھا اور انوار کی لطیف فضا میں ستاروں کی محفل سجی ہوئی تھی، ایک روشن ستارہ اپنی نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ ہر گھنٹے کے بعد یہ ستارہ اپنی جگہ سے آگے بڑھ جاتا ۔ ساری رات کا سفر طے کر کے یہ ستارہ مشرق کو چھو ڑ کر مغرب میں اپنا مسکن بنا چکا تھا۔
میں یہ نہیں جان سکا کہ زمین چل رہی تھی یا ستارہ متحرک تھا۔ صحن میں تخت پر لیٹے لیٹے پوری رات کی روائیداد صرف اتنی ہے کہ ستارہ مشرق سے مغرب میں جا چکا تھا۔ اور اس کے اوپر دن کی روشنی غلاف بن چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ دن بھر ستارہ سفر کر کے رات کو پھر اسی جگہ آجائے گآجہاں سے مشرق میں پہنچا تھا۔ اور یہ عمل جاری وساری ہے۔
جس طرح ستارے اور زمین گردش میں ہیں، کائنات کا ایک ایک ذرہ اپنے اپنے انداز میں متحرّک ہے۔۔۔۔ انسان جس کے لیئے یہ ساری کائنات تخلیق کی گئی ہے وہ بھی ہر لمحہ اور ہر آن جذبات و احساسات کی دنیا میں رد و بدل ہو رہا ہے۔ آنے والا ہر لمحہ ما ضی ہے اور ما ضی فنا ہے- فنا کا وجود ہی دراصل بقا ہے۔ فنا نہ ہو تو بقا کا تذکرہ بے سود ہے۔ انگوٹھا چوستے بچہ کا بچپن جب فنا کے مراحل سے گزر جاتا ہے، تو لڑکپن وجود میں آتا ہے یعنی بچپن کی فنا لڑکپن اور جوانی ہے اور جوانی کی فنا بڑھاپا ہے۔ بڑھاپا فنا ہو جاتا ہے تو ہم دوسرے عالم میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک پروسیس (PROCESS) ہے جو جاری ہے۔
جس طرح بچپنا مر کر جوانی پیدا ہوتی ہے اور جوانی کے اوپر موت وارد ہونے کے بعد بڑھاپا آتا ہے اسی طرح دنیا کے شب و روز بھی مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں۔ جس طرح آدمی چاہے تو زندگی کو مختصر اور چاہے تو اس زندگی کو سو سالوں تک پھیلا لیتا ہے۔ یہی حال دنیا کی زندگی کا بھی ہے۔
آج جب کہ ہر طرف ترقی کا فسوں محیط ہے، یہ دیکھ کر شدت کرب ہوتا ہے کہ ترقی کے خوش نما اور پرفریب جال میں دنیا کی عمر گھٹ رہی ہے۔ زمین بیمار اور عضو ضعیف کی مانند کراہ رہی ہے۔ خدارا میرے اور اپنے اوپر رحم کرو۔ مگر کوئی کان ایسا نہیں ہے کہ اس کی سسکتی ہوئی اور غم میں ڈوبی ہوئی آواز کو سنے۔
اپنی برتری حاصل کرنے کے لیئے قوموں نے ایسے ایسے ہتھیار بنائے ہیں کہ جن کے اوپر موت منڈلا رہی ہے اور ان ہتھیاروں کی موت چار اَرب انسانوں کی موت کا پیش خیمہ ہے۔ ایک مرتبہ جب کوئی چیز وجود پا لیتی ہے تو اس کا استعمال ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ آج کے دور میں ایٹم بم بنانا اتنا آسان ہو گیا ہے کہ سو (۱۰۰) سے زائد افراد کی ایک ٹیم چھوٹی سی فیکٹری میں بیٹھ کر ایٹم بم بنا سکتی ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ کے سلسلے میں جو زبردست خطرہ کھلی آنکھوں نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب بہت سارے ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہوں گے اور آئندہ جب دو پڑوسیوں میں جنگ ہو گی تو ان کا استعمال نا گزیر ہو گا۔
ساتھیو! یہ کیسی ترقی ہے کہ دنیا اس وقت ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور ہم آتش فشاں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔
بالآخر ترقی کا یہ فسوں ایک دن ٹوٹ جائے گا۔ اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے کہ وہ قومیں جو فنا اور بقا کے فارمولوں سے نا آشنا ہو گئی تھیں۔ زمین پر سے اٹھا لی گئیں۔ اورآج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ خدارا سوچئے ہم کدھر جا رہے ہیں۔ موت ہمارے تعاقب میں ہے اور ہم اُسے ترقی کا نام دے کر خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ یہ نتیجہ ہے ان اعمال اور کردار کآجو ہمارے اوپر ہشت پا بن کر مسلط ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ “ فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ “ جو کوئی ایک ذرہ بھلائی کرے گا وہ اسے اپنے سامنے پائے گا اور جو کوئی ایک ذرہ برائی کرے گا وہ بھی اسے اپنے سامنے با ئے گا۔( الزلزال : پارہ ۳۰)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 62 تا 64
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔