آتش بازی
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2407
آئیے ! آج کی نشست میں اپنا محاسبہ کریں اوریہ دیکھیں کہ ہمیں اطمینانِ قلب کیوں نصیب نہیں ہے۔ اور عدم تحفظ کا احساس ہمارے اوپر کیوں مسلط ہے۔
آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر شخص خیالات میں غلطاں و پیچاں، ارد گرد سے بےنیاز، چہروں پر غم و آلام کی تصویریں سجائے اپنی دنیا میں مگن ہے تو دل بےقرار ہو جاتا ہے۔ یہاں وہ بھی پریشان ہے جس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ بھی دل گرفتہ ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ بیماریوں، پریشانیوں، خود نمائی اور احساس کمتری کے دبیز سایوں نے ہمیں اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ غرض جتنے لوگ ہیں ان کے اتنے ہی مسائل ہیں۔ مگر ایک بات سب میں مشترک ہے کہ سکون کسی کو حاصل نہیں ہے۔ سب کے ماتھوں پر بےاطمینانی، عدم تحفظ اور محرومی کی شکنیں پڑی ہوئی ہیں۔ سب شکست خوردہ اور نفرت و حقارت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ دولت کی ہوس اور معیار زندگی بلند سے بلند ہونے کے تقاضوں نے اولادِ آدم کے لیئے دنیا کو دوزخ بنا دیا ہے۔ اقوام ِعالم میں اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے انسانی فلاح و بہبود کے نام پر اربوں کھربوں روپے آسمانی آتش بازی میں تباہ کر دیے۔ جب کہ نوعِ انسانی کی بڑی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔
آج یہ منفی سوچ اتنی زیادہ عام کیوں ہے کہ آدمی ان چیزوں سے خوش نہیں ہوتا جو اُسے حاصل ہیں۔ ان خواہشات کےپیچھے کیوں سرگرداں ہے جن کے حصول میں وہ اعتدال کی زندگی سے روگردانی پر مجبور ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم صبر و استغنا کی نعمت سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ صابر و شاکر اور مستغنی نہیں ہیں وہ اللہ سے دور ہو جا تے ہیں۔ اللہ سے دوری سکون و عافیت اور اطمینانِ قلوب سے محرومی ہے۔ یہ محرومی صبر و استغنا کی لذت سے نا آشنا کر دیتی ہے۔ صبرو استغنا وہ تلوار ہے جس سے ہم مسائل و مشکلات اور عدم تحفظ کی زنجیریں کاٹ کر پھینک سکتے ہیں۔ جب کسی فرد کو صبر و استغناء کی دولت مل جاتی ہے تو اس پر سے مصائب و مشکلات کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ اور جب من حیث القوم صبر و استغناء کسی قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو معاشرہ سدھر جاتا ہے۔ قومیں حقیقی فلاح و بہبود کے راستوں پر گامزن ہو جاتی ہیں۔
یاد رکھیئے! سکونِ دل اور خوشی کوئی خارجی شے نہیں ہے یہ ایک اندرونی کیفیت ہے- جب اس اندرونی کیفیت سے ہم وقوف حاصل کر لیتے ہیں تو ہمارے اوپر اطمینان و سکون کی بارش برسنے لگتی ہے۔ بندہ اس ہمہ گیر طرزِ فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں، پریشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رستگاری حاصل کر کے اس حقیقی مسرت و شادمانی سے واقف ہو جاتا ہے جو اس طرزِ فکر کے حامل بندووں کا حق اور ورثہ ہے۔
آسمانی صحائف اور تمام الہامی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات محبت کے ساتھ پیدا کی ہے۔ تخلیقِ کائنات کے فارمولوں پر اگر تفکر کیا جائے تو زندگی کا ہر شعبہ محبت اور خلوص کا پیکر نظر آتا ہے۔ انسان جس کے لیئے یہ ساری کائنات بنائی گئی، اس کی ساری زندگی ازل تا ابد دو (۲) رُخ پر قائم ہے ایک رُخ وہ ہے جو انسان کو خالقِ کائنات سے قریب کر دیتا ہے اور دوسرا رُخ وہ ہے جو بندہ کو اپنے خالق سے دور کر دیتا ہے۔
حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالےٰ فرماتے ہیں میں چُھپا ہوا خرانہ تھا پس میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ میں پہچانا جاؤں۔ یعنی یہ بات محل نظر ہے کہ اللہ تعالےٰ فرماتے ہیں کہ میں نے محبت کے ساتھ تخلیق کیا یعنی اللہ تعالیٰ کو جاننے کا واحد ذریعہ محبت ہے اور اور اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والا جذبہ محبت کے خلاف نفرت ہے۔ قرآنِ پاک کی تعلیمات اور حضور ﷺ کی زندگی نوعِ انسانی کے لیئے مشعلِ راہ ہے۔ انبیاء کرامؑ کا مشن یہ رہا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی ذہنی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان کے اندر آپس میں بھائی چارہ ہو، ایثار ہو، خلوص ہو اور وہ ایک دوسرے سے محبّت کریں۔
جس معاشرے میں محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ معاشرہ ہمیشہ پر سکون رہتا ہے اور جس معاشرے میں بیگانگی اور نفرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اس معاشرے کے افراد ذہنی خلفشار اور عدم تحفّظ کے احساس میں مبتلا رہتےہیں۔
محبت سراپا اخلاص ہے۔ نفرت مجسم غیظ و غضب اور انتقام کے خد و خال پر مشتمل ہے۔ غصّہ بھی نفرت کی ایک شکل ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد جو لوگ غصّہ کو کھاتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ تعالےٰ ایسے احسان کرنے والے بندووں سے محبت کرتا ہے۔ نفرت کا ایک پہلو تعصب بھی ہے۔ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے جو شخص تعصّب پر جیا اور مرا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ یعنی تعصّب کرنے والا کوئی بندہ حضور علیہ الصّلوٰۃ واالسّلام کی شفاعت سے محروم رہتا ہے۔
محبت کیوں کہ پرسکون زندگی اور اطمینانِ قلب کا ایک ذریعہ ہے، اس لیئے کوئی انسان جس کے اندر محبت کی لطیف لہریں دَور کرتی ہیں وہ مصائب ومشکلات اور پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے چہرے میں ایک خاص کشش پیدا ہو جا تی ہے۔ اس کے برعکس نفرت کی کثیف، شدید اور گرم لہریں انسانی چہرے کو جھلس دیتی ہیں بلکہ اس کے دماغ کو اتنا بوجھل، پریشان اور تاریک کر دیتی ہیں کہ اللہ تعالےٰ کی طرف سے ودیعت کردہ زندگی میں کام آنے والی لہریں مسموم اور زہریلی ہو جاتی ہیں۔ اس زہرسے انسان طرح طرح کے مسائل اورقسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
نفرت سے پیدا ہونے والے امراض کی اگر تفصیل بیان کی جائے تو وہ بہت ہی بھیانک ہے۔ نفرت سے پیدا ہونے والی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ انسان اپنے خالق سے دُور ہو جاتا ہے اور یہ دُوری اُسے اشرف المخلوقات کے دائرے سے نکال کر حیوانیت اور درندگی کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ نفرت انسانی چہرہ کو مسخ کر دیتی ہے اور اس جزبۂ شیطنت سے آدمی کے اندر جو بیماریاں جنم لیتی ہیں وہ سرطان ہے، بھگندر اور فسچولا ہے اور ایسے لا علاج متعدد امراض ہیں جن میں گرفتار ہو کر آدمی سِسک سِسک کر مر جا تاہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 11 تا 14
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔