تخلیقی فارمولے
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=24507
سوال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تخلیق کا وصف اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی کسی کو حاصل ہے۔ اگر یہ وصف اللہ کے علاوہ بھی کسی کو حاصل ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بات ارشاد کی ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں سب سے بہتر ہوں۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق ایک ایسے خالق ہیں کہ جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جس خدوخال میں موجود ہے جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ تو حکم دیتے ہیں اور اس حکم کی تعمیل میں تخلیق کے اندر جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر اس تخلیق کو عمل میں لے آتے ہیں جو تخلیق اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے۔ خالقین کا لفظ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق تو کرنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ جب انسان نے بجلی سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں، کھربوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ ’’کن‘‘ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم نے اختیاری طور پر بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جو قیمتی چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور بے شمار دوسری چیزیں۔ روحانی نقطہ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا دراصل آدم زاد کا بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھا دیا تھا۔ علم الاسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک ایسا علم سکھا دیا جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں سامنے آتی ہیں۔
علم الاسماء اصل علم ہے ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وقوف عطا کر دیا ہے لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے۔ جن لوگوں نے لوہے (یعنی دھات) کی حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے کے اندر گہرائی میں تفکر کیا تو لوگوں کے سامنے لوہے کی لامحدود صلاحیتیں آ گئیں اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کی صفات کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا کہ جس سے موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک تصرف ہے کہ جو وسائل میں کیا جاتا ہے یعنی ان وسائل میں جن وسائل کا ظاہراً وجود ہمارے سامنے ہے جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی کا بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کرتا ہے تو جس طرح لوہے میں تصرف کے بعد وہ عظیم مشینیں، کل پرزے، جہاز، ریل گاڑیاں، خطرناک اور بڑے بڑے بم، راکٹ وغیرہ میں لوہے کو استعمال کرتا ہے اسی طرح روشنیوں کا علم حاصل کر کے وہ روشنیوں کے ذریعے بہت ساری تخلیقات وجود میں لا سکتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ لوہے کے ذرات اکٹھا کر کے خاص پروسیس سے گزار کر ہم لوہا بناتے ہیں تو اس کو وسائل میں تصرف کا نام دیا جاتا ہے لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرات کو محفوظ پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔
وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں مل کر سونے کے اندر کام کرتی ہیں اور ان مقداروں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے۔ سونا اور سونا بن جاتا ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتے ہیں تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ خود بخود موجود ہو جاتے ہیں۔ بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے۔ اس تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنانا اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے۔ یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں کو حرکت دے کر تصرف کیا جاتا ہے اور تصرف کا یہ طریقہ انسان کے اندر نسمہ سے متعلق ہے۔ نسمہ کے اس علم کو سمجھنے کا نام ہی روحانیت ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ چونکہ یہ علم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہوا ہے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ انسان سے ذیلی تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے ’’احسن الخالقین‘‘ ارشاد فرمایا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 102 تا 104
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔