تاجُ الدّین بابا ؒ
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6221
چوپائے کسی کی نوکری نہیں کرتے اور پرندے دُکانیں نہیں سجاتے لیکن زندگی گزارنے کے تمام وسائل انہیں قدرت مہیا کر دیتی ہے۔
چوپائے ہوں یا پرندے ان کی معاشی، معاشرتی زندگی کا تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ بھی جذبات و احساسات کے تانے بانے میں بُنے ہوئے ہیں۔ ، جنس، غصّہ، مادری محبت، پدری شفقت ان کے اندر بھی موجود ہے۔ پرندوں کو اپنے بچوں کی مستقبل کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے۔ بچّے جب زندگی گزارنے کے لیئے تعلیم و تربیت کا دَور پورا کر لیتے ہیں تو ماں باپ اپنا گھر (گھونسلہ) بچوں کے سپرد کر کے پرواز کر جاتے ہیں اور اپنے لیئے ایک ایک تنکآجمع کر کے نیا گھر تعمیر کرتے ہیں۔
چرندے ہوں، درندے ہوں یا پرندے، وہ عقل و شعور بھی رکھتے ہیں۔ حشراتُ الارض (کیڑے مکوڑے) یہ جانتے ہیں کہ ضروریات پوری کرنے کے لیئے پیشگی انتظام نہیں کیا گیا تو ہماری نسل باقی نہیں رہے گی۔ خطّۂ ارض پر ایسے چوپائے بھی موجود ہیں جن میں مستقبل بینی کی صلاحیت عام آدمیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ بلّی اور کتّے کو آنے والی مصیبتوں اور بلاؤں کی یلغار کا پہلے سے پتہ چل جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اور حیوان میں فرق کیا ہے؟ آدمی اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ۔ آدمی بھی چوپایوں کی طرح دو (۲) پیروں سے چلنے والآجانور ہے۔ بصیرت سے دیکھآجائے تو آدمی حیوانات سے ہر لحاظ سے کم تر ہے۔ جتنا یقین ایک چڑیا کو اپنے خالق کے اوپر ہے آدمی کے اندر اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔ جتنا اسِتغا ایک چیونٹی کو ہے آدمی اس سے محروم ہے۔ جو کردار آدمی کو حیوانات سے ممتاز کرتا ہے وہ فکر و شعور کے دائرے میں رہتے ہوئے خالق حقیقی سے رابطہ ہے۔ اگر کسی بندہ کا اپنے خالق سے ربط نہیں ہے تو وہ دراصل دو (۲) پیروں سے چلنے والآجانور ہے۔ ایک جانور چار پیروں سے چلنے والا ہے، دوسرا دو پیروں سے چلنے ہے۔ اُڑنے والآجانور اور تیرنے والآجانور بھی چار پیروں سے چلنے والے جانوروں میں شامل ہے۔ اس لیئے کہ وہ پر بھی استعمال کرتا ہے اور پَیر بھی۔ نیز اس کے اُڑنے کی صورت وہی ہوتی ہے جو چار پیروں سے چلنے والے جانوروں کی ہوتی ہے۔
حیوانات کی نوعوں میں بے شمار دوسری نوعوں کی طرح ایک نوع آدمی بھی ہے لیکن جب کسی بندہ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے تو وہ جانوروں کے گروہ سے نکل کر انسان بن جاتا ہے اور انسانوں کی فکر و فہم یہ ہوتی ہے کہ وہ برملا پکار اٹھتے ہیں کہ ہماراجینا، ہمارا مرنا سب اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی یقینی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں پیدا کیا تھا تو پوچھ کر پیدا نہیں کیا تھا۔ دنیا میں ایک فردِ واحد بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی مرضی سے پیدا ہوا ہو یا اپنی مرضی سے ہمیشہ زندہ رہے۔ ہم ان ہی وسائل سے استفادہ کرتے ہیں جو ہمارے لیئے پہلے سے تخلیق کر دئیے گئے ہیں۔ اس نقطہ کو حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے اپنے ایک دوہےہیں اس طرح بیان کیا ہے
اجگر کریں نہ چاکری پنچھی کریں نہ کام
داس ملو کا کہہ گئے سب کے داتا رام
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 124 تا 125
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔