انرجی کا بہاؤ
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19526
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
انسان خلاء ہے، خلاء میں روح ہے، روح امر رب ہے اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر صاحب کتاب اور اللہ کے قرب سے آشنا تھے، کلیم اللہ تھے وہ تخلیق کا فارمولا جانتے تھے جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تخلیقی فارمولے کے تحت حکم دیا اس پر عمل درآمد ہو گیا۔
پیغمبر کی روح اعظم تک رسائی ہوتی ہے اور وہ روح اعظم میں انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان مشاہدات کی بنا پر پیغمبر کے مادی اجسام بھی نور علیٰ نور ہو جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اللہ کے حکم سے ارادہ فرماتے تھے۔ نسمہ مطلق کا نور نسمہ مفرد میں منتقل ہو کر نسمہ مرکب میں ذخیرہ ہو جاتا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کمرے میں ساٹھ (۶۰) واٹ کا بلب لگا ہوا ہے اس کو اتار کر چھ سو(۶۰۰) واٹ کا بلب لگا دیں اور چھ سو واٹ کر بلب اتار کر ایک ہزار (۱۰۰۰) واٹ کا بلب لگا دیا جائے تو کمرہ روشنی سے چکا چوند ہو جاتا ہے اور بلب پر نظر نہیں ٹھہرتی، جب کہ زیادہ واٹ کا بلب روشن کرنے کے لئے تار، سوئچ ہولڈر کوئی چیز تبدیل نہیں کرنا پڑتی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بغل میں ہاتھ رکھ کر باہر نکال لیتے تھے تو الیکٹرک سٹی کے اصول کے مطابق ان کے ہاتھ میں دوڑنے والا کرنٹ ہزاروں گنا زیادہ ہو جاتا تھا جیسے سوئچ آن کرنے سے ہزاروں واٹ کا بلب روشن ہو جاتا ہے، انسانی ساخت میں جہاں جہاں جوڑ ہیں وہاں دوران خون رک کر آگے بڑھتا ہے اور جوڑوں میں انرجی کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تخلیقی فارمولے کے مطابق جب بغل میں ہاتھ رکھتے تھے تو انرجی کا بہاؤ ہتھیلی میں منتقل ہو جاتا تھا جس سے ہاتھ سورج کی طرح روشن ہو جاتا تھا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 274 تا 275
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔