ارتقاء
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19518
ہمارے زمانہ کو ارتقاء کے عروج کا زمانہ کہا جاتا ہے مادے پر ریسرچ اور انسانی ایجادات کا سلسلہ شعوری ارتقاء کا باعث بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی ایجادات موجود ہونے سے پہلے کہاں تھیں؟ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ ایجاد سے پہلے ان کا وجود نہیں تھا تو ریسرچ کا خیال کیسے آیا؟ اصل بات یہ ہے کہ خیال ہی ریسرچ اور ایجادات کا فارمولہ ہے، جس طرح بغیر بیج کے پودا نہیں اگتا اسی طرح بغیر خیال کے کوئی عمل صادر نہیں ہوتا جس طرح بیج کے اندر پورا درخت بند ہے اسی طرح خیال کے اندر پوری ریسرچ محفوظ(Record) ہے۔ بیج کو ہم درخت کے علم کا نکتہ کہتے ہیں، اسی مناسبت سے خیال کو ہم شئے کے علم کی روشنی کہتے ہیں۔
کائنات کی ہر شئے اور ہر فرد کا دماغ علم کی روشنی کو جذب کر رہا ہے اور دماغ میں یہ روشنیاں خیال بن کر وارد ہوتی ہیں، خیال جب عملی حدود میں پہنچتا ہے تو خیال کے اندر کا خاکہ ظاہری آنکھ اور حواس کے دائرہ میں آ جاتا ہے۔ ظاہری حواس کے دائرے سے علم کی روشنی دوبارہ پھر شعور کی گہرائی میں ریکارڈ بن کر محفوظ ہو جاتی ہے، اس محفوظ شدہ ریکارڈ کو آدمی جب چاہے اپنے ارادے کے ساتھ شعور کی گہرائی یا حافظہ سے شعور کی سطح پر لا سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے افراد کے دماغ سے لہریں نکل بھی رہی ہیں اور جذب بھی ہو رہی ہیں اور یہی مخلوق کی زندگی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 272 تا 272
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔