رحمانی طرز فکر، شیطانی طرز فکر
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19502
وہ تمام علوم جو آدمی شیطانی طرز فکر اور شیطانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے سیکھتا ہے استدراج ہے، استدراج حاصل کرنے کیلئے بھی ذکر و اشغال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ علم بھی محنت و مشقت سے حاصل ہوتا ہے۔
علم حضوری حاصل کرنے کے لئے بھی بڑے بڑے مجاہدے اور ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں جس طرح ایک روحانی آدمی سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے اسی طرح استدراجی علوم جاننے والے سے خرق عادت صادر ہوتی ہے، استدراجی اور شیطانی علوم سے خرق عادت کا صادر ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے۔
فرعون نے اپنے ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو طلب کیا اور ایک مقررہ دن حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے مقرر ہوا، علم استدراج کے ماہرین اور جادوگر جمع ہو گئے وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی موجود تھے، سوال کیا گیا کہ اے موسیٰ! پہل آپ کی طرف سے ہو گی یا ہماری طرف سے؟ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’اے جادوگروں! تم پہل کرو۔‘‘
جادوگروں نے رسیاں پھینکیں جو سانپ بن گئیں اور بانس پھینکے جو اژدھے بن گئے، اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:
’’اے موسیٰ! ڈرنے اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں میں تیرے ساتھ ہوں تو اپنا عصا پھینک دے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا جو ایک بڑا اژدھا بن گیا اور اس نے تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا اور اس طرح علم استدراج کے ماہرین جادوگروں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح حاصل ہو گئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جادوگروں نے رسیاں پھینکیں تو رسیاں سانپ بن گئیں، بانس اژدھے بن گئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی پھینکی تو وہ اژدھا بن کر سارے سانپوں اور سارے اژدھوں کو نگل گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی نصرت سے سارے جادوگروں پر غلبہ حاصل ہو گیا۔ علم کے دو درجے ہیں۔
۱۔ علم کی غرض و غایت، زر پرستی، جاہ طلبی اور دنیاوی عزت و وقار ہو۔
۲۔ علم کی غرض و غایت اور مقصد اللہ کے سوا کچھ نہ ہو ہمیشہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔
اللہ کا فرستادہ بندہ جو دیکھتا ہے جو سنتا ہے وہ اللہ کی معرفت دیکھتا اور سنتا ہے، دولت پرستی اور دنیاوی لالچ سے دور رہتا ہے، ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگ مجھ سے مرعوب ہوں۔ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کے لئے کرتا ہے اللہ کے لئے جیتا ہے اور اللہ کیلئے مرتا ہے اور اللہ کی معرفت سوچتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 267 تا 268
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔