ٹاٹ کا لباس
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19300
توریت میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے:
’’اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز بعد نینوا تباہ ہو جائے گا۔ تب نینوا کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزے کے منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوا کے بادشاہ تک پہنچی اور وہ اپنے تخت سے اٹھا اور بادشاہی لباس اتار کر ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ کے فرمان سے نینوا میں یہ منادی کرا دی گئی کہ کوئی انسان یا حیوان کھانا نہ کھائے، پوری رعایا ٹاٹ پہنے گی، اپنے جانوروں پر بھی ٹاٹ کے جھول ڈال دیئے جائیں، سب انسان خدا کے حضور گریہ و زاری کریں، ہر شخص بری روش اور ظلم سے باز رہنے کا عہد کرے، شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدل دے اور اس کے شدید عذاب سے ہمیں نجات مل جائے۔ جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا۔‘‘
(یوناہ۔ باب ۳۔ آیت: ۴۔۱۰)
’’کہا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ہو، یونسؑ کی قوم کے سوا وہ قوم جو ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا تھا۔‘‘
(سورۃ یونس۔ ۹۸)
حضرت یونسؑ شہر سے باہر نینوا کی تباہی کے منتظر تھے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل نینوا کی توبہ استغفار پر انہیں معاف کر دیا تھا اس لئے چالیس روز گزرنے کے بعد عذاب نازل نہیں ہوا تو حضرت یونسؑ یہ سوچ کر شہر میں داخل نہیں ہوئے کہ اہلِ شہر انہیں جھوٹا سمجھیں گے ۔ حضرت یونس ؑ اللہ کے حکم کا انتظار کئے بغیر وہاں سے چل پڑے۔
روایت کے مطابق آپ نے روم کی طرف سفر کیا۔ آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ اور دو بچے بھی تھے۔ دوران سفر ایک مقام پر حضرت یونسؑ اپنی بیگم اور بچوں کو چھوڑ کر کسی کام سے گئے تو اسی دوران وہاں سے کسی بادشاہ کا گزر ہوا اس نے جب بیابان میں ایک جمیل عورت کو دیکھا تو وہ بچوں کو چھوڑ کر حضرت یونسؑ کی زوجہ محترمہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا۔ حضرت یونسؑ جب واپس تشریف لائے تو اس واقعہ کو مشیت ایزدی سمجھ کر خاموش ہو گئے اور بچوں کے ساتھ دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ راستے میں ایک ندی عبور کرنی تھی آپ ایک بیٹے کو ندی کے کنارے چھوڑ کر دوسرے بیٹے کو کندھے پر سوار کر کے ندی عبور کرنے لگے۔ حضرت یونسؑ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ایک بیٹے کو دوسرے کنارے اتار کر واپس آ کر دوسرے بیٹے کو لے جائیں گے، جب آپ ندی کے درمیان میں پہنچے تو ایک تیز لہر آئی اور بچہ پانی میں گر گیا، پانی کی تیز و تند لہریں بچے کو بہا کر لے گئیں، حضرت یونسؑ نے اس کو بھی مشیت ایزدی سمجھا اور کنارے پر آ گئے لیکن ندی کے کنارے پہنچنے سے پہلے بچہ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا۔
حضرت یونسؑ سفر کرتے ہوئے دریائے فرات کے کنارے پہنچے، ساحل پر مسافروں سے بھری ہوئی ایک کشتی تیار کھڑی تھی۔
آپ اس میں سوار ہو گئے راستے میں کشتی طوفان کی زد میں آ گئی اس وقت لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ جب کوئی مفرور غلام کشتی میں سوار ہوتا ہے تو کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے، کشتی کے ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ اس وقت کشتی میں جو شخص مفرور غلام کی حیثیت سے سفر کر رہا ہے وہ دریا میں کود جائے ورنہ سارے مسافر ڈوب جائیں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 232 تا 233
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔