ناپ تول میں کمی
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19270
حضرت شعیبؑ کی قوم میں بہت بڑی بری خصلت ناپ تول میں کمی اور ناقص چیزوں کی فروخت تھی۔ ناقص چیزوں میں ملاوٹ ایک بڑی برائی ہے۔
آج مسلمان قوم میں وہ تمام برائیاں اظہر من التشمس ہیں جو حضرت شعیبؑ کی قوم میں تھیں۔ جھوٹ، افترابازی، اقرباپروری ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، ملاوٹ (گھی میں ناقص تیل کی ملاوٹ، چینی میں کھانڈ کی ملاوٹ، دودھ میں پانی اور اراروٹ کی ملاوٹ، مرچوں میں سرخ مٹی کی ملاوٹ، پسے ہوئے دھنیے میں لکڑی کے برادے کی ملاوٹ، زندگی بچانے والی دواؤں میں ملاوٹ غرض کے اب بازار میں ہر چیز کے ایک نمبر دو نمبر فروخت ہو رہے ہیں) کم تولنا، ڈنڈی مارنا، نفع کے لالچ میں قانونی حدود کو توڑنا، سود لینا، سود دینا، دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنا، خود کو برتر سمجھنا، دوسرے کے عیب تلاش کرنا، حسد کرنا، غصہ کرنا، صرف اپنے حقوق کا تعین کرنا اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہ کرنا عام ہو گیا ہے۔ ایک ایک بات جس کے نتیجہ میں قومیں تباہ کر دی گئی ہیں مسلمانوں میں سب نظر آتی ہیں۔ پوری قوم کی عزت و آبرو پامال ہو گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن ہر ہر قدم پر مسلمان ان کے محتاج ہیں۔ اگر بینک سے دس لاکھ قرضہ لیا جائے تو تیس سال میں ۵۲ لاکھ روپے سود دینا پڑتا ہے۔
ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک بار بہت آرزدہ ہو کر فرمایا:
’’آج رات دربار نبویﷺ میں بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ فرشتوں نے اجتماعی طور پر عرض کیا کہ ہماری ڈیوٹی تبدیل کر دی جائے ہم قوم کو نیکی انسپائر(Inspire) کرتے ہیں لیکن کوئی قبول نہیں کرتا سوائے ان لوگوں کے جن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔ اور یہ بندے نہایت قلیل ہیں۔ زبانی دعوے سب کرتے ہیں ہر شخص دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرتا ہے مگر خود عمل نہیں کرتا۔
ہم جب خود کو باعث تخلیق کائنات حضرت محمد رسول اللہﷺ کی امت کہتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم حضورﷺ کی تعلیمات پر کتنا عمل کر رہے ہیں۔ حضورﷺ میں عفو و درگذر تھا۔ ہم میں سے کتنے مسلمان معاف کرتے ہیں۔ حضورﷺ امین تھے مسلمانوں میں کتنے لوگ امین ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے غصہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہر گھر میں فساد برپا ہے ہر شخص غصہ کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے خود غرضی سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے معاشرے کی قدریں یہ ہیں کہ ہر شخص دوسرے سے توقع قائم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے لیکن دوسرے کا کوئی حق اس کے ذہن میں نہیں آتا۔ میں اگر کسی سے محبت کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جس سے محبت کرتا ہوں وہ میری ہر بات پوری کرے اور میری حکم عدولی نہ کرے۔
مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک لڑکا کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے وہ علی الاعلان کہتا ہے۔ اگر میری اس لڑکی سے شادی نہیں ہوئی جس سے میں عشق کرتا ہوں تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے پوچھا جائے بھائی! وہ لڑکی تو تجھ سے محبت نہیں کرتی وہ اس کا جواب دیتا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے میں تو اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ہم خود غرضی اور خود فریبی کے جال میں گرفتار ہیں۔ یہی وہ اعمال ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدہ اعمال قرار دیا ہے اور جن کی وجہ سے قوموں پر عذاب نازل ہوا ہے۔ اقتدار کے خواہش مند، خود غرض اور مغرور افراد دراصل اللہ کے اقتدار کو جھٹلاتے ہیں۔ اللہ کے احکامات کی پیروی نہ کرنا اور پیغمبرانہ طرز فکر کی تکذیب کرنا اللہ کے قانون سے بغاوت ہے۔ پہلی قومیں بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہلاک کر دی گئیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 228 تا 229
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔